تربت: بی این پی کے رکن صوبائی اسمبلی میرحمل کلمتی نے کہاہے کہ بلوچستان میں کرونا وائرس پھیلنے کی ذمہ دار حکومت خودہے، تفتان بارڈر سے انتہائی غیرذمہ دارانہ طریقے سے بیک وقت ہزاروں زائرین کوملک کے کونے کونے میں پھیلاکر کرونا وائرس کو درآمدکیاگیا، طویل وغیرمعینہ لاک ڈاؤن کے باوجود ہرصوبائی حلقہ میں محض ڈیڑھ کروڑ روپے کے راشن مذاق کے سواکچھ نہیں۔
گنجان آباد ضلع کیچ کے4حلقوں کیلئے6کروڑ کی رقم 9لاکھ کی آبادی کیلئے انتہائی ناکافی ہے، ہرحلقہ میں 6،6کروڑ روپے کے پیکیج کااعلان کیاجائے، کرونا وائرس کے تناظرمیں ضلع کیچ میں 4جی انٹرنیٹ سروس کی معطلی عوامی مشکلات میں اضافہ کاباعث ہے، ایران سے متصل سرحدکومکمل سیل کیاجائے،چور راستوں سے لوگوں کی آمدورفت جاری ہے جس سے مکران میں کرونا پھیلنے کااندیشہ ہے۔
ان خیالات کااظہار انہوں نے قاسم دشتی ہاؤس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا اس موقع پر بی این پی رہنمامیجرجمیل احمد دشتی، قاسم دشتی، شے نزیر احمد، عبدالواحدبلیدی، سیدجان گچکی، آفتاب گچکی، ڈاکٹرجنیدگچکی، میر انورکلمتی، نزیر احمدکلگی ایڈووکیٹ، الطاف اکبرودیگر موجودتھے، انہوں نے کہاکہ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد صوبوں کو کافی اختیارات اور وسائل مل گئے ہیں۔
اس ترمیم کے بعد وزیراعلیٰ خودمختار اورصوبہ کا چیف ایگزیکٹو ہے مگر اس کے باوجود وزیراعلیٰ نے اپنے اختیارات استعمال کرنے کے بجائے مرکز کی ہدایات پر اکتفاکیا اورتفتان بارڈرکے حوالے سے غیرسنجیدگی کامظاہرہ کیاگیا جس سے یہ وباء تیزرفتاری کے ساتھ ملک میں پھیل گئی،اگرحکومت سنجیدہ اقدامات اٹھاتی، یہ بارڈر بند کردی جاتی اور وہاں آنے والوں کو اچھی طرح تسلی واطمینان سے ٹیسٹ اور صحیح معنوں میں کوارنٹائن کرنے کے بعد جانے کی اجازت دی جاتی۔
تو آج پورے ملک کے لاک ڈاؤن کی نوبت ہی نہ آتی، کرونا اتنی تیزی سے نہ پھیلتی، ڈاکٹرز متاثرنہ ہوتے اور ڈاکٹرزکو اپنی حفاظت کیلئے کٹس کے مطالبات کیلئے سڑکوں پر آنا نہ پڑتا،انہوں نے کہاکہ حال ہی میں بلوچستان سے متصل ایرانی سرحدی شہروں وقصبوں میں بھی کرونا وائرس پھیل چکی ہے، چند کلومیٹر کے فاصلے پرکرونا وائرس پھیلنے کے باوجود تاحال ایرانی سرحدوں سے لوگوں کی آمدجاری ہے۔
مگرکوئی اقدامات نظرنہیں آتے، انہوں نے کہاکہ وزیراعظم کو45دن بعد بلوچستان تو یاد آگیا مگر وزیراعلیٰ بلوچستان اپنے اضلاع اور ڈویژن کے دورے پرنہ جاسکے تاکہ اصل صورتحال سے آگاہی حاصل کرسکتے، انہوں نے کہاکہ محکمہ صحت کی وزارت کاقلمدان بھی ان کے پاس ہے اس حوالے سے انہیں زیادہ سنجیدگی کامظاہرہ کرتے ہوئے صحیح وقت پر صحیح اقدام اٹھانے چاہئیں تھیں، مگر محض ٹویٹر پر کام چلایا جارہاہے۔
ِٹویٹر پر بلوچستان نہیں چل سکتا، اس وقت گھرگھر پہنچنے کی ضرورت ہے گھرگھرراشن پہنچانے کی ضرورت ہے، ٹویٹر سے لاک ڈاؤن سے متاثر کسی بھوکے دیہاڑی دارکاپیٹ نہیں بھرتا، میر حمل کلمتی نے کہاکہ صحت جوپہلی ترجیح ہونی چاہیے مگر اس پرکوئی توجہ نہیں، سڑکوں کیلئے کروڑوں اربوں کے فنڈز ہیں مگر ہسپتالوں میں ادویات کیلئے فنڈزنہیں، ہسپتالوں میں پیناڈول تک دستیاب نہیں، کرونا وائرس کوپھیلے ہوئے ڈیڑھ ماہ سے زائد عرصہ گزرچکاہے۔
مگر ہسپتالوں میں کرونا کی تشخیص کیلئے لیبارٹری نہیں ہے، تشخیصی کٹس نہیں ہیں، ڈاکٹروں اورپیرامیڈیکس کیلئے حفاظتی کٹس نہیں، ایم پی اے گوادرکی حیثیت سے میں نے باربار سیکرٹری صحت بلوچستان اور ایم ایس ڈی سے ملاقاتیں کیں مگر کوئی مثبت نتیجہ برآمدنہیں ہوتا، بجلی و سڑک ضروری ہیں مگرپہلی ضرورت انسانی صحت اورتعلیم ہے، اس کے بعد سڑکوں اور بجلی ودیگرمدات آنے چاہیئں انہوں نے کہاکہ بدقسمتی سے بلوچستان میں عام طورپر باہر کے افسران لائے جاتے ہیں۔
جنہیں زمینی حقائق اوربلوچستان کی صحیح صورتحال کادراک نہیں ہوتا، دوسری طرف ایسے نمائندے مسلط کئے جاتے ہیں جن کاتعلق عوام سے نہیں ہوتا، وہ عوام کے حقیقی مسائل سے آشنائی نہیں رکھتے، ایسی قیادت جو عوام سے ہوں جو ایک سیاسی پراسس سے آگے آئے ہوں ان کا راستہ روکاجاتاہے۔