|

وقتِ اشاعت :   April 17 – 2020

ملک بھر میں لاک ڈاؤن میں توسیع کے احکامات جاری کردئیے گئے ہیں جس کا بنیادی مقصد کوروناوائرس کے پھیلاؤ کو روکنا ہے مگر باوجود اس کے لوکل ٹرانسمیشن کے ذریعے کیسز کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ لاک ڈاؤن کے مقاصد حاصل نہیں ہورہے اور دن بہ دن کیسز کی شرح میں تیزی آرہی ہے جو کہ ایک تشویشناک صورتحال کی نشاندہی کرتی ہے قبل اس کے حالات کنٹرول سے باہر ہوجائیں، وفاق سمیت صوبائی حکومتوں کو سختی برتنی ہوگی مگر اس بات کا خاص خیال رکھتے ہوئے کہ عوام فاقہ کشی کا شکار نہ ہوں۔

ان دونوں صورتحال کوبیک وقت کنٹرول کرنا یقینا اتنا آسان نہیں البتہ اس کو یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے کہ کس طرح کا ایک بہترین میکنزم اپناتے ہوئے ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے مربوط حکمت عملی اپناتی ہے اور لوگوں کو فاقوں کا شکار بھی نہیں ہونے دیتی۔ اس وقت تمام بڑے شہروں سے آنے والی خبریں اچھی نہیں ہیں۔ ترجمان سندھ حکومت مرتضیٰ وہاب نے کہا ہے کہ لاک ڈاؤن ختم یا نرم ہونے کا تاثر بالکل غلط ہے۔

لاک ڈاؤن کے دوران استثنیٰ اور کھلنے والی دکانوں کے حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ حجام، دھوبی، درزی، سینیٹری، پلمبر اور کارپینٹر کی دکانیں کھولنے کی اجازت دینے کا تاثر غلط ہے۔ سندھ حکومت اور نہ ہی وفاقی حکومت کی جانب سے ایسی کوئی اجازت دی گئی، وزیراعظم کے اعلان سے ایک تاثر ابھرا کہ جیسے لاک ڈاؤن ختم ہوگیا جو کہ سراسر غلط ہے۔

مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ سندھ نے واضح کردیا کہ لاک ڈاؤن مزید سخت ہوگا، سندھ حکومت نے کنسٹرکشن اور برآمدی صنعتوں کو کام کی اجازت دی ہے۔ کنسٹرکشن کے شعبے اور برآمدی صنعتوں کو تمام ایس او پیز پر عمل کرنا ہوگا، ایس او پیز محکمہ داخلہ سندھ کی جانب سے جاری کی جاچکی ہیں۔ لاک ڈاؤن سے مستثنیٰ اداروں کو ہر حال میں انڈر ٹیکنگ دینا ہوگی، انڈر ٹیکنگ کے بغیر کنسٹرکشن کے شعبے کو اجازت نہیں دی جاسکتی۔مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ حکومتی ادارے ایس او پیز کا جائزہ لینے کیلئے ان شعبوں کا معائنہ کرنے کے مجاز ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے انسانی جانیں زیادہ قیمتی ہیں۔بہرحال سندھ حکومت کی جانب سے سب سے پہلے لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا گیا تھا اور اب تک سب سے سخت ترین لاک ڈاؤن بھی کراچی میں دیکھنے کومل رہا ہے جبکہ ملک کے دیگر مرکزی شہروں میں اتنی سختی نہیں جوکہ صوبائی حکومتوں اور انتظامیہ کی ذمہ داری بنتی ہے جس طرح کراچی کے مرکزی شاہراہوں سمیت گنجان آباد ی پر مشتمل علاقوں میں پولیس اور رینجرز کی پیٹرولنگ جاری رہتی ہے تاکہ لوگ غیرضروری طور پر گھروں سے باہر نہ نکلیں جبکہ ایمرجنسی کی صورت میں انہیں باہر نکلنے کی اجازت ہے۔

بارہا اس جانب توجہ مبذول کرائی جارہی ہے کہ عوامی ہجوم کو روکنے کیلئے ضلعی سطح پر انتظامیہ کو فعال کردار ادا کرنا چاہئے،اسی طرح سیکیورٹی اہلکاروں کی گشت اور پیٹرولنگ کو بڑھایاجائے تاکہ لاک ڈاؤن کے اہداف حاصل کئے جاسکیں مگرعوامی مسائل کو حل کئے بغیر کسی صورت اس جنگی حالت سے نکلنا مشکل ہے لہٰذا اس میں حکومت، سیاسی جماعتوں، مذہبی حلقوں، فلاحی اداروں کا کردار انتہائی اہم ہے جو اس مشکل گھڑی میں غریب عوام کو راشن کی فراہمی یقینی بنائیں تاکہ عوام کو فاقوں کا سامنا نہ کرناپڑے اور حکومت عوامی ریلیف کو یقینی بنانے کیلئے مؤثر اقدامات اٹھائے تاکہ عوام میں موجود بے چینی کا خاتمہ ہوسکے۔