|

وقتِ اشاعت :   April 18 – 2020

آپ کے ارگرد متعدد افراد ایسے ہوسکتے ہیں جن میں نئے نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 موجود ہو مگر وہ اس سے لاعلم ہو۔

اس امکان کا ذکر سب سے پہلے جنوری میں چین کے نیشنل ہیلتھ کمیشن وزیر ما شیاﺅوی نے کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس وائرس کے شکار فرد میں ایک سے 14 دن تک کوئی علامات سامنے نہ آنے کا امکان ہوتا ہے اور اس دوران یہ کسی دوسرے فرد میں منتقل ہوسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وجہ سے وائرس کو پھیلنے سے روکنا مشکل ہورہا ہے جبکہ اس کے ایک سے دوسرے فرد میں منتقل ہونے کی صلاحیت مضبوط ہوتی جارہی ہے۔

اس کے بعد سائنسدانوں نے بھی اس کو ثابت کردیا بلکہ امریکا کے محکمہ صحت سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن (سی ڈی سی) کے ڈائریکٹر ڈاکٹر رابرٹ ریڈ فیلڈ نے تو ایک انٹرویو میں کہا ‘اب اس بات کی تصدیق کرسکتے ہیں کہ بڑی تعداد میں افراد میں اس بیماری کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں، اور 25 فیصد کیسز میں ایسا ہوسکتا ہے’۔

اس کے بعد آئس لینڈ میں محققین نے بتایا تھا کہ نئے نوول کورونا وائرس کے 50 فیصد سے زائد کیسز ایسے تھے جن میں علامات نظر نہیں آئیں اور وہ اس ملک میں بڑے پیمانے پر ہونے والی ٹیسٹنگ کے دوران سامنے آئے۔

اس کے بعد ایک اور رپورٹ میں امریکی ادارے سی ڈی سی نے کہا تھا کہ سنگاپور کے محققین نے متعدد ایسے کیسز کی نشاندہی کی ہے جس میں بغیر علامات ظاہر کیے ایک سے دوسرے فرد میں وائرس منتقل ہوا۔

اس کے بعد ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ جن افراد میں علامات ظاہر نہیں ہوتیں، وہ کووڈ 19 کے 44 فیصد تشخیص ہونے والے کیسز کا باعث بنتے ہیں۔

اس تحقیق کے مطابق لوگوں میں یہ وائرس اس وقت زیادہ متعدی ہوتا ہے جب ان میں علامات طاہر نہیں ہوتیں۔

ڈاکٹر ریڈفیلڈ کے مطابق ‘ایسے بغیر علامات والے مریض لگتا ہے کہ وائرس کو پھیلانے میں اہم ترین کردار ادا کررہے ہیں اور ممکنہ طور پر علامات ظاہر ہونے سے 48 گھنٹے پہلے ان سے وائرس صحت مند افراد میں منتقل ہوسکتا ہے’۔

ان کے بقول اس سے سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ امریکا بھر میں یہ وائرس بہت زیادہ تیزی سے کیوں پھیل رہا ہے کیونکہ علامات سے پاک مریض اس میں اہم ترین کردار ادا کررہے ہیں۔

وائرس کیسے منتقل ہوتا ہے؟

وینڈربیلٹ یونیورسٹی میڈیکل سینٹر کے وبائی امراض کے ماہر ڈاکٹر ولیم اسکیفنر کے مطابق ‘یہ خیال حیران کن نہیں کہ نظام تنفس کے وائرسز کس طرح خاموشی سے ایک سے دوسرے فرد میں منتقل ہوتے ہیں، یہ درحقیقت وائرس کے لیے فائدہ مند ہوتا ہے، کیونکہ اگر آپ بظاہر صحت مند ارگرد گھوم کر وائرس پھیلا رہے ہیں، تو اس کے شکار افراد کی تعداد بھی بڑھے گی، ایک بار جب آپ بیمار ہوگئے تو آپ کی نقل و حرکت محدود ہوجائے گی’۔

میہری میڈیکل کالج کے صدر ڈاکٹر جیمز ہیلڈرٹ کے مطابق یہ نیا کورونا وائرس دسمبر میں چیین سے پھیلنا شروع ہوا اور اس نے 4 ماہ میں 20 لاکھ افراد کو متاثر کردیا۔

انہوں نے کہا ‘جب آپ اس طرح کے وائرس کا سامنا کررہے ہوں تو اس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے ہر قسم کا اقدام کرنا پڑتا ہے کیونکہ ایسے افراد بہت زیادہ ہیں جو اس وائرس کو پھیلا تو رہے ہیں، مگر وہ خود اس سے لاعلم ہیں کہ وہ بیماری میں مبتلا ہیں’۔

فیس ماسک کیوں اہم ہیں؟

امریکا میں پہلے فیس ماسک کے استعمال کو غیرضروری قرار دیا گیا تھا مگر اپریل کے شروع میں سی ڈی سی نے اس کے استعمال پر زور دینا شروع کیا اور لوگوں کو کہا جارہا ہے کہ عوامی مقامات پر جاتے ہوئے وہ اپنے چہرے کو ماسک یا کپڑے سے ضرور کور کریں۔

درحقیقت وہاں کپڑے کے ماسک کے استعمال کی ہدایت کی جارہی ہے اور ڈاکٹر ولیم اسکیفنر کا کہنا تھا ‘کپڑے کے ماسک میں اس وائرس کو ہھیلنے سے روکنے میں موثر ہیں’۔

امریکا میں فیس ماسک پر اب اتنا زور کیوں دیا جارہا ہے تو اس کے بارے میں ڈاکٹر ولیم اسکیفنر نے بتایا ‘اس کی 2 وجوہات ہیں، ایک وجہ تو یہ ہے کہ ابتدا میں ہم نہیں چاہتے تھے کہ عام افراد این 95 ماسکس کے پیچھے بھاگ کر طبی عملے کے لیے اس کی قلت کا باعث نہ بن جائیں، دوسری وجہ یہ ہے کہ بغیر علامات ظاہر کیے ایک سے دوسرے فرد میں وائرس کی منتقلی کی شرح وقت کے ساتھ بہت زیادہ بڑھ چکی ہے، جس کی وجہ سے ماسک کا استعمال ضروری ہوگیا ہے’۔

ان کا ماننا ہے کہ فیس ماسکس کے استعمال سے نفسیاتی فائدہ بھی حاصل ہوسکتا ہے وہ بھی اس وقت جب صورتحال قابو سے باہر نظر آتی ہے ‘ماسک کو پہن کر میں اپنے ساتھ اپنے خاندان کا تحفظ بھی کررہا ہوں، یہ وہ احساس ہے جو ماسک پہننے سے لوگوں میں پیدا ہوتا ہے، اور جب آپ اپنے ارگرد لوگوں کو ماسک پہنے دیکھتے ہیں، تو ایک برادری کا احساس پیدا ہوتا ہے’۔