|

وقتِ اشاعت :   April 21 – 2020

ملک بھر میں اس وقت کورونا وائرس کے نئے کیسز مقامی سطح پر سامنے آرہے ہیں جس کی بڑی وجہ شعور کا فقدان ہے، لوگ اسے عام بخار یا فلو سمجھ رہے ہیں اور ٹیسٹ کرنے سے گھبرارہے ہیں،اس کے لئے ضروری ہے کہ مقامی سطح پر اسے کنٹرول کرنے کیلئے آگاہی پروگرام شروع کیا جائے وگرنہ کیسز کی شرح مزید بڑھتی جائے گی جوکہ صورتحال کو مزید گھمبیر کردے گی۔ عوام کو ایک طرف وائرس کا خطرہ ہے تو دوسری جانب معاشی صورتحال کی فکر ہورہی ہے جس کیلئے صوبائی حکومتوں کو جامع حکمت عملی اپنانی چاہئے تاکہ مقامی سطح پر کوروناوائرس کے پھیلاؤ کو روکا جاسکے۔

گزشتہ روز پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹرظفر مرزا کا کہنا تھا کہ اب ملک میں کورونا وائرس مقامی افراد سے پھیل رہا ہے جس کی شرح 60 فیصدہے۔ڈاکٹر ظفرمرزا نے اجلاس کو بتایا کہ ملک میں کورونا وائرس کے ٹیسٹ کی تعداد میں اضافہ ہورہاہے۔ این95 ماسک کی فراہمی کیلئے اقدامات کررہے ہیں، کوشش کی جارہی ہے کہ مقامی سطح پر این 95 ماسک خود بنائیں۔انہوں نے کہا کہ جو ڈاکٹر اسپتالوں میں کام کررہے ہیں ان کیلئے این 95 ماسک پہننا لازمی ہے۔ ڈاکٹروں کوحفاظتی سامان کی فراہمی کیلئے مزید اقدامات کررہے ہیں۔

معاون خصوصی کے مطابق قومی اورصوبائی سطح پرلاک ڈاؤن کی وجہ سے وائرس کے پھیلاؤ میں کمی آئی ہے۔ اب تک ملک بھرمیں ایک لاکھ 5 ہزارٹیسٹ کیے گئے ہیں۔ڈاکٹر ظفر مرزا نے اجلاس کو بتایا کہ کوشش کررہے ہیں کہ روزانہ کی بنیاد پر20 ہزار ٹیسٹ کیے جائیں۔چیئرپرسن احساس پروگرام ڈاکٹرثانیہ نشتر نے پارلیمانی کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ کورونا سے متعلق نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اس وائرس کے پھیلاؤ کا عمل تیز ہے، وائرس سے80 فیصد متاثرہ افراد میں علامات ظاہرنہیں ہوتیں۔ ہمیں بنیادی اصول مرتب کرنے کے بعد روزمرہ کی زندگی کی طرف واپس آنا ہوگا۔

ڈاکٹرثانیہ نشتر نے کہا کہ لاک ڈاؤن سے ملک کی اقتصادی صورتحال پردباؤ آرہاہے۔ دیکھنا ہوگا کہ ملک لاک ڈاؤن کی صورتحال کتنی دیرمزید برداشت کرسکتاہے۔وزیر خارجہ شاہ محمودقریشی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی بھر پوراندازمیں اپناکرداراداکررہی ہے، کمیٹی کو طویل دورانیہ کی پالیسیوں کے حوالے سے تجاویز پیش کرنے چاہئیں۔انہوں نے کہا کہ لاک ڈاؤن سے متعلق صوبوں کے تجربات سے آئندہ کی پالیسی مرتب کرنا ہوگی۔ صحت اورمعیشت کے درمیان توازن پیدا کرنا ہوگا۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان کی معیشت طویل لاک ڈاؤن برداشت نہیں کرسکتی۔

طویل لاک ڈاؤن سے ملک میں غربت میں اضافہ ہوگا۔بہرحال لاک ڈاؤن پر بھی اس طرح سختی نہیں برتی جارہی جس طرح چین سمیت دیگر ممالک نے فارمولا اپنایا اور وہاں مکمل علاقوں کو سیل کیا گیا اور جن علاقوں میں کیسز کی شرح تیزی سے پھیل رہی تھی وہاں مکمل طور پر سختی سے لاک ڈاؤن کیا گیا اور اب بھی بعض ممالک میں یہی صورتحال ہے جبکہ جن ممالک میں کورونا وائرس کے حوالے سے حالات کنٹرول میں ہیں وہاں جزوی لاک ڈاؤن اور ایس او پیز کے ذریعے چھوٹے پیمانے پر کاروباراور نقل وحرکت کی اجازت دی گئی ہے۔

مگر ہمارے ہاں لاک ڈاؤن ہونے کے باوجود بھی اس طرح کے نتائج برآمد نہیں ہورہے جس کی توقع کی جارہی تھی۔ لہٰذا وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتیں ملکر ایک لائحہ عمل اپناتے ہوئے فیصلہ کریں تاکہ کورنا وائرس کے پھیلا ؤ کو مقامی سطح پر روکا جاسکے،اوراسی طرح چھوٹے پیمانے پر معاشی سرگرمیوں کو ایس او پیز کے ذریعے بحال کیاجاسکے۔