|

وقتِ اشاعت :   April 21 – 2020

2018کے انتخابات سے کچھ ہی عرصے قبل صوبے میں ایک نئی جماعت وجود میں آئی جس کے بانی سعید احمد ہاشمی ہے اور پارٹی کا نام بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) رکھا گیا۔ پارٹی قیام میں آتے ہی پارٹی اراکین نے سیاسی ریس میں برتری حاصل کرنے کیلئے اپنے اپنے گھوڑے سنبھال لئے۔ خیر الیکشن ہوئے اور بلوچستان عوامی پارٹی نے اپنے فتح کے جھنڈے گھاڑ دئیے اور صوبے میں اکثریت حاصل کرلی لیکن حکومت بنانے کیلئے ان کو دیگر پارٹیوں کا ساتھ درکار تھا لہٰذا انہوں نے مرکز میں اکثریت سے جیتنے والے پارٹی کے اراکین یعنی پی ٹی آئی کے علاوہ اے این پی، ایچ ڈی پی، بی این پی عوامی کو اپنے ساتھ ملا لیا۔

اور یوں ایک اور مخلوط حکومت قائم کی گئی اب یہاں وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالنے کیلئے کوششیں تیز ہوگئیں اور پارٹی صدر یعنی جام کمال خان عالیانی،میر عبدالقدوس بزنجو، اور میر ظہور بلیدی نے وزارت اعلیٰ کی ریس میں دھوڑنا شروع کردیا جس میں کامیابی جام کمال صاحب کو ہی ملی لیکن وزارت اعلیٰ کے منصب سنبھالنے کیساتھ ہی پارٹی عدم استحکام کی شکار ہوئیں۔ میر عبدالقدوس بزنجو کو اسپیکر بلوچستان اسمبلی کا قلمدان سونپ کر اور میر ظہور بلیدی کو وزارت اطلاعات کا قلمدان دے کر اونٹ کے منہ میں زیرہ ڈال کر ان کو تسلیاں دینا شروع ہوگئیں اور ہم مخلوط حکومت میں شامل دیگر جماعتوں کو بھی ایک یا دو وزارتیں دے دی گئیں۔

یوں حکومت پہیہ چلنا شروع ہوگیا۔تقریباً ایک سال کا عرصہ گزرنے کے بعد صوبائی وزیر میر سرفراز خان ڈومکی اور وزیر اعلیٰ بلوچستان کے درمیان کسی بات پر اعتراض شروع ہوا جس کا اختتام اس حد پر پہنچا کہ میر سرفراز ڈومکی نے اپنی وزارت سے استعفیٰ دیکر پارٹی کو اپنے غصے کا احساس دلانے کی ایک ناکام کوشش کی جس پر پارٹی نے کان نہ دھریں۔ دیکھتے ہی دیکھتے پارٹی میں کئی رہنماؤں اور کارکنوں نے جام حکومت کیخلاف سر اٹھانا شروع کردیا۔ اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو نے تو بالکل جام حکومت کا تختہ پلٹنے کی ٹھان لی تھی لیکن چیئرمین سینٹ میر صادق سنجرانی اور ق لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت کے منانے پر انہوں نے معاملہ ترک کردیا۔

یاد رہے گزشتہ دور حکومت میں بھی میر عبدالقدوس بزنجو ہی تھے جنہوں نے اس وقت کے وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری کیخلاف بغاوت شروع کردی اور خود جاکر وزارت اعلیٰ کے منصب پر براجمان ہوگئے۔ خیر قدوس بزنجو کی تحفظات کو تاحال دور کیا گیا ہے کہ نہیں اس سے اب تک کافی لوگ بے خبر ہے لیکن لگتا نہیں کہ اسپیکر بلوچستان اسمبلی جام کمال کی حکومت سے خوش ہے کیونکہ وہ کافی عرصے سے اسمبلی اجلاس کی صدارت کیلئے نہیں آرہے جس سے ان کی ناراضگی ظاہر ہوتی ہے۔

حکومت میں شامل پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو بھی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا اور مجبوراً اپنے مطالبات لے کر ہائی کمانڈ یعنی وزیر اعظم کا دوازہ کٹکٹایاجس کے بعد وزیر اعظم نے پی ٹی آئی بلوچستان کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند اور وزیر اعلیٰ بلوچستان کے درمیان بیچ بچاؤ کرواکر سردار یار محمد رند کو وزارت تعلیم دلوائی اور یوں کمال حکومت کا پہیہ جام ہونے سے بچھ گیا لیکن لگتا ایسا ہے کہ شاید سردار یار محمد رند اور جام کمال کے درمیان اب بھی جنگ جاری ہے۔

کیونکہ گزشتہ روز وزیر اعظم عمران خان کا کورونا وائرس کے اجلاس کے بعد پی ٹی آئی بلوچستان کے پارلیمانی رہنماؤں سے ملاقات سے ایسا ہی لگتا ہے کہ شاید سردار یار محمد رند وزیر اعظم سے جام کمال صاحب کی شکایت کرنے گئے تھے۔ ساری دنیا کی طرح بلوچستان کو بھی کورونا وائرس نے چاروں طرف سے گھیرے میں لے لیا ہے اور ساری دنیا کی طرح حکومت نے بھی عوام کو چاروں طرف سے گھیر لیا ہے۔ وفاقی حکومت کی ہدایت پر صوبائی حکومت نے بلوچستان بھر میں لاک ڈاؤن کا اعلان کرکے دفعہ144بھی نافذ کردیا تاکہ کورونا کے مرض سے بچا جاسکے۔

جس پر تاجروں نے حکومت کیساتھ بھرپور تعاون کیا اور تقریباً گزشتہ ایک ماہ سے صوبے بھر میں کاروباری مراکز بند پڑے ہیں، صرف ہسپتال،پرچون،دودھ کی دُکانیں مجبوری کے تحت کھلی رکھنے کی اجازت دی گئی ہے اب اس حالات میں دیہاڑی دار اور مزدور طبقہ کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ گزشتہ روز کوئٹہ کے علاقے پشتون آباد میں ایک دیہاڑی دار مزدور کو کہ پہلے سے ہی کافی قرضوں میں ڈوبا ہوا تھا، اس کی 6سال کی بیمار بیٹی تڑپ تڑپ کر انتقال کرگئیں کیونکہ اس مزدور کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ اپنی پھول جیسی پیاری بیٹی کو ہسپتال تک پہنچا سکیں۔ایک اور واقع گزشتہ دنوں دیکھنے میں آیا وہ یہ کہ وزیر اعلیٰ ہاؤس کے سامنے ایک غریب گھرانے جس میں ایک خاتون اور کچھ بچے بھی شامل تھے نے احتجاج کیا۔

جس پر یہ تسلی دے کر کہ آپ کو امداد دینے لے جارہے ہیں انہیں حوالات کی ہوا کھلائی گئی اور اطلاعات کے مطابق پولیس کے ذریعے انہیں دھمکایا بھی گیا کہ اگر آئندہ وہ اس طرح کی حرکت کرینگے تو اس سے سخت سزا دی جائیگی۔ بلوچستان چونکہ پہلے سے ہی ہر لحاظ سے کافی پسماندگی کا شکار ہیں اور کورونا وائرس کی آمد کے بعد حکومت کی جانب سے صوبے میں لاک ڈاؤن کے نفاذ کے بعد دیہاڑی دار مزدور طبقہ کی جیسے جان ہی نکال لی گئی ہوں آپ کو ہر علاقے،ہر گلی،ہر محلے میں میں ایسی کئیں مثالیں دیکھنے کو ملیں گی جس کی وجہ سے غریب کا جینا دوبھر ہوچکا ہے۔

صوبے کے ہر گلی محلے میں ہمیں ایسی مجبور بیوائیں،بوڑھے، یتیم بچے دیکھنے کو ملیں گے اور وہ دن دور نہیں جب لوگ کراچی میں ایک خاتون نے لاک ڈاؤن،حکومتی بے حِسی اور غربت سے تنگ آکر گلے میں رسی ڈال کر خودکشی کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ آج بھی جب کوئٹہ کے مین شاہراہوں جناح روڈ، قندھاری بازار، لیاقت بازار و دیگر علاقوں سے گزر ہوتی ہے تو روڈ کے کنارے مزدور کار افراد کو رات 12بجے تک بیٹھے دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے ہر کسی کی اپنی عزت نفس ہوتی ہے۔

لیکن مجبور ہوکر دیہاڑی دار افراد روڈ کے کنارے بیٹھ کر کسی مخیر شخص کی آمد کا انتظار کررہے ہوتے ہے تاکہ رات کو بچوں کے پاس خالی ہاتھ نہ لوٹنا پڑے کیونکہ خالی ہاتھ گھر لوٹنے والے افراد سے بچے سوال کرتے ہیں اور وہ سوالات ہر طاقتور انسان کو خودکشی جیسے انتہائی اقدام پر مجبور کرتا ہے اور ایسے اقدامات کا ذمہ دار حکومت وقت ہی ٹھہراتا ہے اور موجودہ حکومت ان غریب اور سفید پوش لوگوں کی داد رسی میں اس وقت مکمل طور پر ناکام نظر آرہی ہیں۔

گزشتہ روز وزیر اعظم کے کوئٹہ کے دورے سے ایک روز قبل ہی یہ بات بھی سننے کو ملی کہ صوبائی حکومت اور بیورو کریسی میں بھی ٹھن چکی ہے۔ کچھ روز قبل ایک صوبائی وزیر اور ایک سیکرٹری کے درمیان کسی اجلاس کے موقع پر بد زبانی کے بعد ہاتھا پائی بھی ہوئی جس کی گھونج وزیر اعلیٰ ہاؤس اور چیف سیکریٹری بلوچستان کے دفاتر تک جا پہنچی اور بیورو کریسی اور حکومت کے درمیان ٹھن گئی۔

بیوروکریسی اپنا پاور شو کرنے لگی اور حکومت نے اپنے وزیر کے حق میں بولنا شروع کردیا یوں بیوروکریسی اور حکومت کے درمیان پائی جانیوالی خلل نے شدت اختیار کرلیا اور ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعظم کی کوئٹہ آمد کا مطلب بھی شاید یہی تھا کہ صوبائی حکومت،اپوزیشن جماعتوں اور بیوروکریسی کے درمیان پائے جانیوالے خلل کو ختم کیا جاسکے۔ ایک بات اور بھی دیکھنے کو ملی کہ بلوچستان اسمبلی میں اے این پی کے پارلیمانی لیڈر اصغر خان اچکزئی نے بھی چیف سیکریٹری بلوچستان کی سربراہی میں بننے والی کمیٹی کا حصہ بننے سے انکار کردیا اور انہوں نے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ میں چیف سیکریٹری کیساتھ کام ہرگز نہیں کرونگا۔

صوبائی حکومت پہلے ہی کافی مشکلات میں گھری ہوئی تھی اور رہی سہی کسر کورونا وائرس کیخلاف لڑنے والے ڈاکٹروں نے پوری کردی۔کورونا وائرس کے مریضوں کے علاج میں مصروف کئی ڈاکٹرز اب تک کورونا وائرس کا شکار ہوچکے ہیں لہٰذا کورونا وائرس کیخلاف لڑنے کیلئے اور اپنے تحفظ کیلئے حکومت سے اقدامات اٹھانے کی درخواست کردی جس پر حکومت نے کان نہ دھری۔

ڈاکٹروں نے مجبور ہوکر سول ہسپتال کے ایم ایس،سیکرٹری صحت و دیگر اعلیٰ حکام کے دفاتر کو تالے ڈال کر ان کیخلاف احتجاج شروع کردیا۔ڈاکٹروں کے احتجاج پر لاٹی چارج کی گئی اور کئی ڈاکٹروں کو زخمی کیا گیا اور درجنوں ڈاکٹروں کو گرفتار کرکے حوالات میں بند کردیا گیا رات گئے تھے شدید سیاسی دباؤ کے بعد حکومت نے ڈاکٹروں کو واپس چھوڑنے کا فیصلہ کیا لیکن مذاکرات ناکام ہونے کے بعد ڈاکٹروں نے حوالات سے باہر نکلنے سے انکار کردیا ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ ہم ہسپتال میں کورونا کے مریضوں کا علاج کرتے ہوئے بھی مررہے ہیں اور حوالات میں بھی ہمیں مارا جارہا ہے اور ہم تب تک حوالات سے باہر جانے کیلئے تیار نہیں۔

ہونگے جب تک ہمارے تحفظ کیلئے اقدامات نہیں اٹھائے جاتے۔ اگلے روز انجینئر زمرک اچکزئی، ظہور بلیدی و دیگر کی سربراہی میں ایک ٹیم نے ڈاکٹروں کیساتھ مذاکرات کئے اور کامیاب مذاکرات کے بعد ڈاکٹروں نے ہڑتال ختم کرنے کا فیصلہ کرلیالیکن اسی رات ہی حکومت کی جانب سے وعدہ وفا نہ کرنے پر ڈاکٹروں نے واپس وزیر اعلیٰ ہاؤس کے سامنے ڈھیرے ڈال دئیے اور دوبارہ دھرنا شروع کردیا۔ ایسا لگ رہا ہے کہ کمال کی حکومت جام ہونے جارہی ہے کیونکہ گزشتہ روز باپ پارٹی کے 3وزراء اور ایک پارلیمانی سیکرٹری جن کا تعلق پشتون بیلٹ سے ہے۔

نے اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے استعفے وزیر اعلیٰ بلوچستان کا بھجوادئیے۔ ہفتہ کو بلوچستان عوامی پارٹی کے صوبائی وزراء نورمحمد دمڑ،مٹھا خان کاکڑ،حاجی محمد خان طوراوتمانخیل اورپارلیمانی سیکرٹری سردار مسعود لونی نے کوئٹہ میں مشترکہ ملاقات کے بعد وزیراعلیٰ کے نام تحریر کردہ اپنے استعفوں میں لکھاہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے قیام کا مقصد صوبے کے عوا م کی بلا تفریق خدمت تھا لیکن صوبے کے پشتون اضلاع کو یکسر طور پر نظر انداز کیا جارہا ہے۔ ناراض رہنماؤں نے یہ بھی تحریر کیا کہ وزیراعلیٰ کے پاس15سے زائد محکموں کے قلمدان ہیں جبکہ کابینہ میں بھی پشتون وزراء کو ترجیح نہیں دی گئی لہٰذا وہ احتجاجاً اپنے عہدوں سے مستعفی ہورہے ہیں۔

صوبائی وزراء اور پارلیمانی سیکرٹری کے استعفیٰ پر وزیر اعلیٰ بلوچستان نے سوشل میڈیا پر ٹویٹ کے ذریعے اظہار خیال کیا کہ اس مشکل وقت میں حکومت مزید مشکلات کا متحمل نہیں ہوسکتا اور وزیر اعلیٰ نے واضع کیا کہ ایمر جنسی حالات میں بحیثیت وزیر اعلیٰ بلوچستان میرا مکمل دیہان کورونا وائرس کیخلاف جاری جنگ پر مرکوز ہے اور بحیثیت انسانیت کے ایسے موقع پر سب کو عوام کی مشکلات حل کرنے کی ذمہ داری اٹھانی چاہیے۔

مذکورہ بالا مسائل کو دیکھتے ہوئے گزشتہ دو سالوں سے جام کمال صاحب کی حکومت اپنے پارٹی رہنماء، ہم خیال جماعتوں کے اراکین اسمبلی،وزراء، بیوروکریسی کے آفیسران، اپوزیشن پارٹیوں اور عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے اور شاید اگلے کچھ ہی دنوں میں کمال صاحب کی حکومت کا پہیہ واضع طور پر جام ہوتا نظر آرہا ہے جوکہ یقینا اس صوبے کیلئے نیک شگون نہیں۔