کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں لاک ڈاؤن میں 5 مئی تک توسیع کردی گئی جس میں تمام پابندیاں بدستور برقرار رہیں گی۔ نوٹیفکیشن کے مطابق عوامی مقامات پر 10یا 10سے زائد افراد کے اجتماع پر پابندی برقرار ہے جبکہ نجی اور سرکاری مقامات پر ہر قسم کے اجتماعات پر بھی پابندی ہے۔اس کے علاوہ درباروں، درگاہوں سمیت تمام مقامات پر اجتماعات پر بھی پابندی برقرار ہے۔نوٹیفکیشن کے مطابق شہر، بین الاضلاعی، بین الصوبائی ٹرانسپورٹ پر پابندی رہے گی جبکہ خاتون یا معمرافراد کے علاوہ موٹرسائیکل کی ڈبل سواری اور کار میں 2 افراد سے زائد کی سواری پر بھی پابندی رہے گی۔
البتہ بیمار شخص کی صورت میں کار میں تیسرے شخص کی سواری کی اجازت ہوگی۔بلوچستان میں تمام تعلیمی ادارے، دفاتر، کوچنگ سینٹرز اور مدارس 31 مئی تک بند رہیں گے جبکہ شاپنگ مالز، سنیما، فارم ہاؤسز، پکنک پوائنٹس، شادی ہالز، لان، جم،کلب سمیت کھیلوں کے میدان، تربیتی مراکز، ہوٹلز، بیوٹی پارلرز، شورومز، لگژری سامان کے اسٹور بھی بند رہیں گے۔ لاک ڈاؤن میں صرف صحت، خوراک اورفوڈ پیکنگ کے شعبے سے منسلک افراد پابندی سے مستثنیٰ ہوں گے۔کوروناوائرس سے بلوچستان میں متاثرین کی تعداد 465 ہے جب کہ 6 مریض بھی انتقال کر گئے ہیں۔
بلوچستان میں لاک ڈاؤن کے باوجود صورتحال کنٹرول نہیں ہورہی جس کی واضح مثال دارالحکومت کوئٹہ ہے جہاں پر عوامی ہجوم، موٹرسائیکل کی ڈبل سواری عام طور پر دیکھنے کو مل رہی ہے جبکہ بعض علاقوں میں کاروبار بھی کھلے ہوئے ہیں، شہری بڑی تعداد میں نہ صرف خریداری کررہے ہیں بلکہ دکانوں پر بھی ہجوم دکھائی دیتا ہے جبکہ گلی محلوں میں لوگ بغیر کسی احتیاط کے آزادانہ گھوم پھررہے ہیں جس کی وجہ سے کوئٹہ میں کورونا وائرس کے کیسز رپورٹ ہورہے ہیں۔ ا ب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محض لاک ڈاؤن کے اعلان اور پابندیوں کے فیصلوں سے کورونا وائرس کی روک تھام کارگر ثابت ہوگی اگر ایسا ہے۔
تو پہلے سے ہی لاک ڈاؤن موجود ہے پھر کیونکر یہ گھمبیر صورتحال کورونا کی سامنے آرہی ہے یقینا اس میں لاک ڈاؤن پر عملدرآمد کو یقینی نہ بنانا شامل ہے۔ بڑے تجارتی مراکز، شاپنگ مالز، ریسٹورنٹ، فوڈ پوائنٹس تو پہلے سے ہی بندش کا شکار ہیں جہاں کا رخ عوام نہیں کررہی لیکن کوئٹہ کے مختلف علاقوں میں عوامی ہجوم دیکھنے کو مل رہی ہے،اسی طرح کی صورتحال بلوچستان کے دیگر اضلاع میں بڑے شہروں اوردیہاتوں کی ہے محض لاک ڈاؤن کے اعلانات سے ہی کورونا وائرس کو روکا نہیں جاسکتا بلکہ انتظامی سطح پر سخت کریک ڈاؤن کی ضرورت ہے۔
اور لوگوں کو گھروں تک محدود کرنے کیلئے انتظامیہ کے ساتھ مقامی پولیس اور لیویز کو تعینات کیاجائے جبکہ سیکیورٹی اہلکاروں کی پیٹرولنگ کو بڑھائی جائے جہاں سے شکایات موصول ہورہی ہیں وہاں مؤثر طریقے سے کارروائی کی جائے تب جاکر لاک ڈاؤن کے نتائج برآمد ہونگے وگر نہ محض اعلانات پر ہی اکتفا کیاجائے گا تو مزید چھ ماہ لاک ڈاؤن کرنے کے باوجود بھی مثبت نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔
اس جانب پہلے بھی توجہ مبذول کرائی جاتی رہی ہے کہ لاک ڈاؤن کے باوجود اس پر عملدرآمد نہیں ہورہا،لہذا وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان بذات خود اس کا سخت نوٹس لیتے ہوئے انتظامیہ کو متحرک کرے، اس کے علاوہ غریب عوام کی مشکلات کے پیش نظر ان کے معاشی مسائل کو بھی حل کیاجائے تاکہ دیہاڑی دار اور مزدور طبقہ معاشی مجبوری کے تحت گھروں سے باہر نکلنے پر مجبو ر نہ ہو۔ بہرحال تمام ایس او پیز اور ہدایات پر عملدرآمد کرانا حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے تاکہ لاک ڈاؤن کے نتائج بھی برآمد ہوں اور کورونا کو مقامی سطح پر روکا بھی جا سکے۔