|

وقتِ اشاعت :   April 27 – 2020

ملک کے دیگر صوبوں کی نسبت بلوچستان مالی حوالے سے اتنا مستحکم نہیں کہ خطرناک آفات کا مقابلہ کرسکے اس لئے کوئی بھی قدرتی آفت آتی ہے تو بلوچستان کے عوام شدید متاثر ہوتے ہیں، قحط سالی، سیلاب اور زلزلہ سے بے تحاشہ نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے،آج تک یہاں کے عوام پر جوگزری ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔آج بھی اندرون بلوچستان لوگ غذائی قلت یا صحت کے ناقص نظام کی وجہ سے موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں خاص کر زچگی کے دوران خواتین کی شرح اموات زیادہ ہوتی ہیں کیونکہ صحت کے مراکز میں وہ سہولیات دستیاب نہیں جس سے عوام کو فائدہ پہنچ سکے۔

یہاں کے بیشتر عوام کا ذریعہ معاش زراعت سے وابستہ ہے، قحط سالی کی وجہ سے یہ شعبہ بھی شدید متاثر ہے۔ اس کے علاوہ لوگ مال مویشی اور گلہ بانی کے ذریعے بھی اپنا گزر بسر کرتے ہیں بدقسمتی سے اس شعبہ کو بھی خاص اہمیت نہ دینے کی وجہ سے یہاں کے لوگ غربت کی انتہائی نچلی سطح پر زندگی بسرکررہے ہیں۔ اب حالیہ کورونا وائرس نے رہی سہی کسر پوری کردی کہ لاک ڈاؤن سے روزگار بند پڑا ہے سرحدی علاقوں میں کروڑوں روپے کی تجارت ہوتی تھی جس سے کسی حد تک لوگوں کاگزر بسر ہوتا تھا مگر سرحدوں کی بندش اور تجارتی سرگرمیوں پر پابندی کی وجہ سے اکثریت بیروزگار ہوچکی ہے۔

اور کاروباری طبقہ بھی دیوالیہ ہوچکا ہے۔ بلوچستان میں حکومتی اسکیمات تک عوام کی رسائی نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ اکثریت کو یہ آگاہی بھی حاصل نہیں کہ وہ اس امداد کے حصول کے تیکنیکی مراحل کو پورا کرسکیں اس لئے بیشتر افراد اس جانب توجہ نہیں دیتے اور اپنے روزگار کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ لہذاوفاقی حکومت اس خطرناک صورتحال میں بلوچستان حکومت کو دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ ترجیح دے کیونکہ بلوچستان ملک کا سب سے پسماندہ ترین صوبہ ہے اور یہاں کے عوام کے ذرائع معاش انتہائی محدود ہیں۔

وزیراعظم عمران خان مسلسل صوبائی حکومتوں کے وزرائے اعلیٰ کے ساتھ ویڈیو لنک کے ذریعے رابطے میں رہتے ہیں اور اجلاس منعقد کرتے رہتے ہیں جہاں وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان تمام صورتحال سے وفاقی حکومت کو آگاہ کرر ہے ہیں۔ گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت منعقدہ نیشنل کوآرڈینیشن کمیٹی کے اجلاس میں وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے ویڈیو لنک کے ذریعہ شرکت کی، وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کورنا وائرس کیسز کے ٹریسنگ میکینزم کو مزید مؤثر بنا نے کی ضرورت پر زور دیتے ہو ئے کہا کہ اس میکینزم سے علاقائی سطح پر کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے رجحان کا اندازہ ہو گا اور اس مخصوص علاقے میں اسمارٹ لاک ڈاؤن کے ذریعہ وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے اقدامات کرنا ممکن ہو سکے گا۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ صوبائی حکومت وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے لاک ڈاؤن سمیت عوام میں احتیاطی تدابیر،ماسک کے استعمال کا شعور اور آگاہی اجا گر کرنے کے لیے اقدامات کر رہی ہے اور شہر میں رینڈم ٹیسٹنگ کا آغاز بھی کر دیا گیا ہے۔ نماز تراویح کی ایس او پی پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے علماء کرام اور لاک ڈاؤن 5 مئی تک برقرار رکھنے کے لیے تاجروں کو اعتماد میں لیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ نے احساس پروگرام کو سراہتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے لوگوں کو انگو ٹھے کے نشان کی شناخت میں مشکل پیش آرہی ہے۔

اگر 50 برس سے زائد عمر کے افراد کو نشان کی شناخت میں 50 فیصد رعایت دی جائے تو یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔بہرحال اس وباء نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور عوام یکساں مشکل صورتحال کا سامنا کررہے ہیں ایسے وقت میں پالیسیاں انتہائی اہمیت رکھتی ہیں امید ہے کہ احساس پروگرام کے حوالے سے درپیش عوامی مشکلات کا ازالہ کیاجائے گا جس کی نشاندہی وزیراعلیٰ بلوچستان نے کی ہے، اس کے ساتھ ساتھ دیگر ایسی پالیسیوں پربھی غورکرنے کی ضرورت ہے جس سے عوامی مشکلات کو کم کیاجاسکے۔