|

وقتِ اشاعت :   April 28 – 2020

ملک میں ایک عجب سا ماحول چل رہا ہے لاک ڈاؤن کا بنیادی مقصد کیا ہے اس پر کس طرح عمل درآمد کیاجارہا ہے یا کرایا جارہا ہے، عوامی ہجوم، ٹریفک کی معطلی، تجارتی مراکز کی بندش، ٹرانسپورٹ کی بندش، سرکاری اور پرائیویٹ محکموں کے ملازمین کی چھٹیاں، تعلیمی اداروں اور مدارس کی بندش تک کی صورتحال واضح نہیں۔ جب لاک ڈاؤن کافیصلہ حکومتی سطح پر کیا گیا تھا تو کس طرح مقامی سطح پر کورونا وائرس تیزی سے پھیلنے لگا اور اب مزید سخت لاک ڈاؤن کی صدائیں ڈاکٹروں کی جانب سے بلند ہورہی ہیں جبکہ وفاقی حکومت اسمارٹ لاک ڈاؤن کی باتیں کررہی ہے۔

اول روز سے ہی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان لاک ڈاؤن پر کوئی اتفاق نہیں ہوا بلکہ واضح طور پر تضادات موجود تھے مگر باوجود اس کے عوامی زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی تھی اور اس کابراہ راست اثر غریب عوام پر ہی پڑا ہے۔ جب لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا تھا تو اس پر سختی سے عملدرآمد کرانا حکومت کی ذمہ داری بنتی تھی کہ لوگوں کو مکمل گھروں تک محدود رکھا جاتا،مخصوص جگہوں کی بندش کی جاتی،اب ڈاکٹر کرفیو کامطالبہ کررہے ہیں جبکہ گزشتہ روز وزیر اعظم کی معاون خصوصی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہی کہ اسمارٹ لاک ڈاؤن کے ذریعے قوم کو خوف سے بچانا ہے۔

حکومت کو ہر سوچ اور مکتبہ فکر کے افراد کا تعاون درکار ہے جبکہ موجودہ صورتحال میں امام، خطیب اور موذن کا بھی اہم کردار ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت اور علماء کے درمیان معاہدے پر عمل کرنے کے حوالے سے تحفظات ہیں اور صدرمملکت نے خط میں تحفظات کا اظہار بھی کیا۔ مساجد کو کورونا کے پھیلاؤ کا ذریعہ نہیں بننے دیں گے۔ امید ہے تمام مساجد کی انتظامیہ اپنا کردار مزید موثر بنائے گی اور 20 نکاتی معاہدے پر من و عن عمل کیا جائے گاجبکہ ڈاکٹر بے چینی اور اضطراب کا اظہار کر رہے ہیں۔ ہمیں ڈاکٹروں کی خدمات پر فخر ہے وہ کورونا کے خلاف ہمارے سپاہی ہیں۔

اس لیے حکومت نے ڈاکٹروں کے جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم ڈاکٹروں کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان کے تحفظات پر تمام صوبائی حکومتیں اور ادارے کام کر رہے ہیں۔فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ حکومت نے اسمارٹ لاک ڈاوَن کا فیصلہ کیا ہے جس کے ذریعے عوام کو خوف سے نکالنا ہے۔ بدقسمتی سے صورتحال ابھی بھی اسی طرح برقرار ہے کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ علمائے کرام اور تاجر برادری کے ساتھ مشاورت کے دوران ڈاکٹروں کی نشست کرائی جاتی تاکہ ڈاکٹر صورتحال سے آگاہ کرتے اور ایک مشترکہ فیصلہ کیا جاتا جس سے کوئی کنفیوژن پیدا نہ ہوتی۔

پہلے مرحلے میں جو کچھ کرنا تھا اب کیاجارہا ہے جتنی سختی پہلے مرحلے میں کی جاتی اب اس پر زور دیا جارہا ہے جبکہ ڈاکٹروں کی جانب سے پہلے کٹس کی فراہمی کا مطالبہ اور اب کورونا کے پھیلاؤ کے خدشات بیان کیے جارہے ہیں یقینا ڈاکٹر صف اول کے سپاہی ہیں مگر اس خطرناک وباء کو صرف ڈاکٹروں یا حکومتی اعلانات اور احکامات سے شکست نہیں دی جاسکتی بلکہ مشترکہ طور پر سب کو ملکر اس کے خلاف جنگ لڑنا ہے جس میں عوام کا کردار انتہائی کلیدی ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ کوئی ایک پالیسی اور طریقہ کار واضح نہ ہونے کی وجہ سے آج ایک بڑے چیلنج اور مشکل کا سامنا کرناپڑرہا ہے۔

اب لوگوں نے بازاروں کا رخ کرلیا ہے،دکانیں کھل رہی ہیں عوام بلاخوف وخطرگھروں سے نکل رہے ہیں چونکہ ان کے مسائل اور مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ایک مہینے تک سخت لاک ڈاؤن کرتے ہوئے بہترین نتائج حاصل کئے جاتے مگر ایسا نہ ہوا۔ اب بھی وقت ہے کہ مشترکہ پالیسی بنائی جائے اور عوامی مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کئے جائیں۔