بلوچستان میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں تیزی دیکھنے کو مل رہی ہے اور سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ مقامی سطح پر کیسز زیادہ رپورٹ ہورہے ہیں۔ اب تک کورونا وائرس سے 8 سو سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں جن میں ڈاکٹروں کی بڑی تعداد شامل ہے اور اس میں اہم عہدوں پر فائز ڈاکٹر بھی متاثرہورہے ہیں۔کوروناوائرس سے اب تک 15 اموات ہوچکی ہیں اگر ٹیسٹنگ اور کیسز کی شرح کا موازنہ کیاجائے تو رواں ماہ کے دوران مزید نئے کیسز پچھلے ماہ کی نسبت زیادہ ہونگے جوکہ انتہائی گھمبیر صورتحال کی عکاسی ہے۔
اس لئے بارہا گزارش کی جارہی ہے کہ لاک ڈاؤن میں سختی برتی جائے، عوامی ہجوم اس وقت بھی کوئٹہ سمیت بڑے شہروں میں دکھائی دے رہا ہے جبکہ بعض علاقوں میں دکانداربہ حالت مجبوری دکانوں کو خفیہ طور پر کھلے رکھے ہوئے ہیں جس سے نظریں نہیں چرائی جاسکتیں۔ اس لئے ایس اوپیز بناکر تاجر تنظیموں کے ساتھ بیٹھک لگائی جائے اور اس پر عملدرآمد کویقینی بنایا جائے۔ گزشتہ روز وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں کورونا وائرس کے سدباب کیلئے پہلا فیز ختم ہونے کے بعد دوسرے مرحلے کا آغاز ہوچکا ہے۔
صوبے میں وائرس کا پھیلاؤ خطرناک ہو سکتا ہے لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی پر سخت کارروائی ہوگی، کوئٹہ میں اب تک 600 رینڈم ٹیسٹ میں سے 35مثبت آئے ہیں،رینڈم ٹیسٹ کے نتائج کے بعد مخصوص علاقوں میں لاک ڈاؤن اور راشن فراہمی کی صورتحال کا جائزہ لیں گے، مساجد کی جانب سے ایس او پی پر عملدرآمد کاجائزہ لیاجارہاہے، جن مساجد میں خلاف ورزی ہورہی ہے ان کے بارے میں علماء کی مشاورت سے کارروائی کی جائیگی،اگر لوگ لاک ڈاؤن میں تعاون کریں گے تو اس میں نرمی بھی لائی جاسکتی ہے۔
رمضان کے پہلے 10روز میں صورتحال دیکھ کر آئندہ لاک ڈاؤن کا فیصلہ کریں گے۔وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہاکہ دوسرے مرحلے میں ہمیں لاک ڈاؤن کے اثرات اور معاشی صورتحال کو بھی دیکھناہے،انہوں نے کہاکہ بلوچستان کا کسی دوسرے صوبے کے ساتھ موازنہ نہ کیا جائے، ہمارے پاس طبی شعبے میں اتنی زیادہ سہولیات نہیں ہیں، نجی شعبے میں میڈیکل کی سہولیات بھی دوسرے صوبوں کی نسبت بہت کم ہیں،کوروناوائرس کے حوالے سے ہم اپنے وسائل میں رہتے ہوئے بہت کچھ کررہے ہیں۔
لیکن کوروناکے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے مزید کام کرناہوگا،ہمارے یہاں کورونا کا پھیلاوء بہت خطرناک ہوسکتا ہے، ہمیں اس دن سے گھبراناچاہئے کہ جب کوروناکی وجہ سے اسپتالوں میں رش ہوگا، اگر کوروناکے کیسز ہزاروں میں چلے گئے تو انہیں سنبھالنا بہت مشکل ہوجائیگا۔ بہرحال اس وقت پورے ملک میں صورتحال پر ڈاکٹرز زیادہ تشویش کااظہار کررہے ہیں۔لہذا لاک ڈاؤن میں سختی کرتے ہوئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے بلوچستان میں پہلے سے ہی صحت کی سہولیات دیگر صوبوں کی نسبت نہ ہونے کے برابرہیں محدود وسائل میں رہتے ہوئے اس خطرناک وباء کو شکست دینا مشکل نہیں۔
بلکہ ناممکن ہوگا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان اس وقت خود تمام صورتحال کی باقاعدہ مانیٹرنگ کررہے ہیں لہٰذا لاک ڈاؤن کے حوالے سے ایک بار پھر
جائزہ لیتے ہوئے علمائے کرام، ڈاکٹرز اور تاجربرادری کے ساتھ بیٹھک لگائی جائے تاکہ جو ضروری اقدامات فی الوقت کرنے ہیں ان پر اتفاق رائے سے مشترکہ فیصلہ کیاجائے تاکہ وباء کے پھیلاؤ کو نہ صرف روکنے میں مدد مل سکے بلکہ معاشی حوالے سے جو عوامی پریشانی اور دیگر معاملات ہیں ان کے حل کے حوالے سے بھی کوئی درمیانہ راستہ نکالاجاسکے۔