|

وقتِ اشاعت :   May 8 – 2020

شام کے آخری پہر کے کالے گہرے سائے، سیاہ کالی رات کی آمد کی اطلاع دے رہے تھی اور یہ کالے سائے ناز بی بی کے دل پہ بھی انجانے خوف کی مانند امڈ رہے تھے۔اس کے دل پہ یہ شب ہتھوڑے کی ضرب جیسی لگ رہی تھی۔
یہ خوف تو بظاہر انجان تھا لیکن ناز بی بی اس خوف اور اس گہرے سائے سے باخوبی واقف تھی۔وہ جانتی تھی کہ صبح کی روشنی اس کی زندگی میں ہمیشہ کے لیے گہرے اندھیرے بھر دے گی۔ صبح کا سورج اس کی دنیا اجاڑدے گا۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ رات کے ان خوفناک لمحوں سے کہے کہ تھم جاؤ، کچھ وقت کے لیے رک جاؤ کہ وہ اپنی دنیا کھونا نہیں چاہتی تھی۔
اس نے اپنے خوف پہ قابو پانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے سوچا کہ بالاچ بہت دن سے بھوکا بھی تو ہوگا۔ خدا جانے ان ظالموں کے چنگل سے نکلنے کے بعد کتنے دن بھوکا پیاسا ان سنگلاخ پہاڑوں میں چھپتا وہ اس تک پہنچا تھا۔وہ آخری بار اس کو جی بھر کے دیکھنا چاہتا تھا۔یہی سوچتے ہوئے اس نے لکڑیاں سلگائیں، توے کو سلگتی لکڑیوں پہ رکھ دیا اوربالاچ کے لیے روٹیاں توے پہ ڈالنے لگی۔
انجانے خوف اور سوچوں کے گھیرے میں اسے خبر نہیں ہوئی کہ کب سے بالاچ اسے چار پائی پہ بیٹھے حسرت سے تک رہا ہے۔ وہ جب روٹیاں پکا کر بالاچ کے آگے رکھ کر مڑنے لگی تو بالاچ نے اسے اپنے پاس بیٹھنے کو کہا۔ وہ چپ چاپ کسی فرمانبردار بچے کی طرح بالاچ کے سامنے سر جھکا کر بیٹھ گئی۔
بالاچ اس سے مخاطب ہوکر کہنے لگا،”ناز بی بی! تم جانتی ہو کہ مجھے تم سے کتنی محبت ہے۔ میں اپنی محبت الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ تم جانتی ہو، میں تم سے بار بار محبت کا اظہار نہیں کرتا۔ میں تمھیں صرف اپنی منکوحہ نہیں سمجھتا، تم میری سنگت ہو، میرے دکھ درد‘ رنج تکلیف کی ساتھی‘میرا سایہ‘ میرا نصف وجود۔۔۔ میں اتنے جتن کرکے یہاں صرف تمھیں دیکھنے آیا کہ تمھیں دیکھے بنا میری روح کو چین نہیں پڑنا تھا اور میں سکون سے شاید مربھی نہیں سکتا تھا۔“
وہ دم بھر کو رکا اور پھر کہنے لگا،”پر‘ تم یہ بھی جانتی ہوکہ مجھے تم سے صرف محبت ہے،مگر مجھے اپنی ماں اپنی زمین اپنی دھرتی سے عشق ہے۔ جانتی ہو تم؟ عشق جنوں ہوتا ہے اور جنوں پہ کوئی سودا نہیں کیا جاتا۔وہاں سر کٹنے پہ بھی سکون ہوتا ہے۔ میں نے اپنی زمیں کو پوجا ہے۔ میں نے اس کی حفاظت کے لیے اپنا لہو تک قربان کرنے سے دریغ نہیں کیا۔“
یہ کہہ کر اْس نے اِدھر اْدھر نظر دوڑائی جیسے اسے شک ہو کہ کوئی اسے سن نہ رہا ہو۔پھر نازو کا ہاتھ تھام کرکہنے لگا،”میں تم سے یہ سب اس لیے کہہ رہا ہوکہ کل صبح ہوتے ہی فرنگی مجھے ڈھونڈتے ہوئے یہاں پہنچ جائیں گے اور مجھے گرفتار کرنے کے بعد شاید تا عمر قید میں رکھیں یا سزائے موت سنا دیں کہ ان کی نظر میں اپنی ماں اپنی زمین اپنی دھرتی سے عشق اور اس کی حفاظت کرنا نا قابلِ معافی جرم ہے۔ میں چاہتا ہوں جب وہ مجھے گرفتار کرکے لے جائیں تو میری محبت‘ میرے عشق جنوں کے سامنے کمزور نہ پڑے۔“
اس نے نہایت اپنائیت اور پیار سے نازو کا ہاتھ دباتے ہوئے کہا،”ناز بی بی! مجھے تم فخر سے الوداع کرنا۔میں چاہتا ہوں آنے والی نسلیں میرے عشق و جنوں کی داستان سن کر فخر محسوس کریں۔ میرے چلے جانے کے بعد تم اشک نہ بہانا۔ میرے عشق کو میری محبت کے سامنے رسوا نا کرنا۔۔۔دھرتی سے وفا سر مانگتی ہے، لہو مانگتی ہے اور مجھے اس سے بڑھ کر خوشی نہیں ہوگی کہ میں اپنے عشق، اپنی مہر پہ قربان ہوجاؤں۔“
ناز بی بی نے ایک گہرا سانس لیا اور خاموشی سے ہاں میں سر ہلا کر اٹھ کے مناہ میں چلی گئی۔(باورچی خانے نما کچی مٹی سے بنا ایک چھوٹا کمرہ)
لکڑیاں سلگ کر انگار بن چکی تھیں۔ دہکتے انگاروں میں جل جانے کے باوجودمگر اتنی سلگن نہیں تھی، جتنی نازو کے دل میں جدائی کے درد سے تپش اٹھ رہی تھی۔ انگاروں کو سلگتا دیکھ کر وہ سوچنے لگی کہ اب وہ تمام عمر بالاچ کو نہ دیکھ سکے گی۔۔۔ اس سوچ نے ناز بی بی کے کلیجہ کو بھی دہکا کر رکھ دیا۔
کیسی گھڑی تھی، کیسی سیاہ رات،جب عشق‘ جنوں‘ محبت‘ محبوب۔۔۔ سب آپس میں الجھ پڑے تھے۔ناز بی بی کا دل چاہا کہ بالاچ سے کہے کہ اسی رات کی تاریکی میں علاقہ چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے لاپتہ ہوجاتے ہیں۔
لیکن وہ جانتی تھی کہ اس کی محبت،مٹی کی محبت و عشق کے سامنے کمزور پڑ جائے گی۔
اور بھلا محبت‘ محبوب کو کمزور پڑتے ہوئے کہاں دیکھ سکتی تھی!!
کیا قیامت کی رات۔۔۔تھی نازبی بی کی روح اس غم سے اس قدر بوجھل تھی کہ وہ چاہ رہی تھی کہ اس قدر چلا چلا کر روئے کہ اس کی آواز سن کر قدرت بھی رو پڑے۔
خود کو مضبوط بنانے کی ایک آخری کوشش کرتے ہوئے ناز بی بی نے دل میں ایک آخری فیصلہ کی گانٹھ باندھ لی۔
وہ بالاچ کی چارپائی کے پاس آکر بیٹھی اور اس سے کہنے لگی،”یہ سیاہ رات کتنی طویل اور گھٹن زدہ ہے؟ کیا ہم ایسا کرسکتے ہیں کہ عشق سے یہ چند آخری لمحے چرا کر محبت کے نام کریں؟ کیوں نہ ہم یہ چند لمحے اسی جگہ جاکر گزاریں جہاں ہم پہلی بار ملے تھے!“
بالاچ نے سرد آہ بھری اور اثبات میں سر ہلا کر ناز بی بی کے ساتھ اسی پہاڑی کی طرف چل پڑا،جہاں اس نے ناز بی بی کو پانی کا گھڑا سر پہ ڈھوئے پہلی بار دیکھا تھا اور اس پہ دل ہاربیٹھا تھا۔
رات سرد تھی اور چاند کی روشنی نے پورے آسمان کو روشن کررکھا تھا۔
”بالاچ! چاند کتنا خوبصورت ہے ناں۔“
”ہاں، لیکن تم سے کم!“ بالاچ نے ناز بی بی کے چہرے پہ حسرت کی نگاہ ڈالتے ہوئے کہا اور ہر بار کی طرح نازبی بی اپنی تعریف پہ شرما گئی۔
پہاڑی کے پاس پہنچ کر دونوں کافی دیر تک ایک دوسرے سے محوِ گفتگو رہے۔ عمر بھر کے دکھ سکھ یاد کرکے ہنستے تو کبھی آنکھوں میں جدائی کے غم سے نمی آجاتی۔
کبھی ایک دوسرے کی گود اور کبھی کاندھے پہ سر رکھے ان باتوں ہی باتوں میں انھیں پتہ ہی نہ چلا کہ کب رات کا ایک پہر گزر گیا۔
تب بالاچ نے بوجھل دل کے ساتھ ناز بی بی سے کہا،”چلو گھر لوٹ چلتے ہیں، صبح ہونے میں کچھ ہی وقت بچا ہے۔“
ناز بی بی نے بالاچ کی طرف آخری بار دیکھا۔اس کی نگاہ میں الوداع کی لہر کے ساتھ انجانا سکون اور غم تھا۔
ناز بی بی زیرلب بڑ بڑانے لگی،”آج ہمیں یہیں مرنا ہوگا۔۔۔“
نازو سوچنے لگی کہ وہ بالاچ کی کہیں نہ کہیں مجرم ہوگی۔ سوچنے لگی، کاش بالاچ پہلے مجھے اپنے ہاتھ سے مار دے تاکہ اسے کوئی ملال اور افسوس نہ رہے۔
اسی سوچ میں گم نازو کو بالاچ کی آواز نے چونکا دیا۔ ”ناز بی بی، چلو صبح ہونے والی ہے۔“
نازو نے بالاچ کو دیکھ کر کہا،”میں فیصلہ کرچکی ہوں۔“
”کیسافیصلہ؟ کون سا فیصلہ؟“بالاچ نے نازو کی آنکھوں میں گم نام سائے محسوس کرتے ہوئے حیرت سیپوچھا۔
نازو نے اپنی چادر میں لپٹا پستول نکالا۔ پستول اس کے ہاتھ میں لرزنے لگا،کیونکہ اسے انسانی جان لینے کا کبھی تجربہ ہی نہیں ہوا تھا۔
نازو بالاچ کے قریب آکرکھڑی ہوگئی۔
بالاچ نے نازو کے ہاتھ میں پستول دیکھا تو حیرت میں مبتلا ہوگیا۔
”ناز بی بی، یہ کیا؟ تم پستول مجھ پہ تانے کیوں کھڑی ہو؟“
نازو کی آواز لڑکھڑائی وہ کہنے لگی،”میں تمھیں مکت کر دوں گی۔ میں نہیں چاہتی میری محبت فرنگیوں کے ہاتھ جا کر شہید ہو۔ میں نہیں چاہتی بالاچ، تمھاری پاک روح جو دھرتی سے عشق کرتی ہے،جو اس پاک زمین سے عشق کرتی ہے،ان ناپاک روحوں کے ہاتھ لگے۔میں خود تمھیں آزاد دے کر تمھاری پاک روح کے دھرتی سے عشق کو امر کردونگی۔تمھیں آزادی دے کر میں خود کو بھی آزاد کردوگی کہ تمھارے بنا جینا ایسا ہے کہ تپتی دھوپ میں تنِ تنہا ننگے پیر پہاڑوں پہ چلنا اور مجھ میں یہ حوصلہ نہیں کہ میں تم بن جی سکوں۔“نازو کا گلہ خشک ہوچکا تھا۔اس کاوجودکانپ رہا تھا۔
بالاچ، ناز بی بی کا جنوں دیکھ کر مسکرا دیا۔ نازو کے ہاتھ لڑکھڑانے لگے۔ بالاچ نے آنکھیں بند کرکے کہا،”چلا دوگولی۔۔۔تمھیں ہماری محبت کی قسم،چلادو گولی۔۔۔“
محبت اور دھرتی کے درمیان ایک نئی کہانی رقم ہونے والی تھی۔مٹی سے عشق کا جنوں امر ہونے والاتھا۔
ناز بی بی نے آنکھیں موند لیں۔لرزتے ہاتھوں سے بالاچ کی چھاتی پہ پستول تان کر فائر کردیا۔
گولی کی آواز پہاڑوں میں دور تک گونجی اورکئی پنچھی بے چین ہو کر اپنے آشیانوں سے اڑ گئے۔
نازو نے آنکھیں کھولیں اور بالاچ کی چھاتی سے لپٹ گئی۔اس کے چہرے پہ ایک سکون اور دھرتی سے عشق کے امر ہوجانے کی مسکان واضح تھی۔ اس کی روح سرخرو ہوچکی تھی؛ اپنے عشق میں،دھرتی سے عشق میں۔
بالاچ کی خون آلودچھاتی ناز بی بی کے اشکوں سے نم ہورہی تھی۔
سورج مشرق کی پہاڑیوں سے ابھرنے لگا تھا۔ناز بی بی نے پہاڑی کے دامن سے دور آبادخیموں پہ ایک نظر دوڑائی۔ پھر اپنی گود میں رکھے بالاچ کے پر سکون چہرے کو دیکھ کر آنکھیں موند لیں اور پستول اپنی کنپٹی پہ رکھ لیا۔
ایک اور فائر فضا میں گونجا اور ساتھ ہی فضا میں عطا کا شعر گونجا جو غمناک ماحول پر طاری کسی شکوے کی طرح دونوں کے درمیان گونجتا چلا گیا۔
دھوپ کی تمازت تھی، موم کے مکانوں پر
اور تم بھی لے آئے سائبان شیشے کا
گردشِ زمانہ ٹھہر گئی۔
خاموش مہکتی فضا میں چھید ہوگئے۔
نازو کا لہو سے لتھڑا جسم بالاچ کے پہلو میں آگیا۔محبت کاسانس ٹوٹنے لگا۔
اور کچھ ہی لمحوں میں ایک حسین محبت، دلکش سنگتی کے ساتھ سنگلاخ پہاڑ کے درمیان دم توڑ چکی تھی۔
عشق کو سکوں مل چکا تھا،مہر مل چکی تھی۔
زمین اپنے عاشقوں کے لہو سے مہک اٹھی تھی۔عشق امر ہوچکا تھا،جنوں کو منزل مل چکی تھی، نئی کہانی رقم ہوچکی تھی۔
پاک روحیں اپنے لہو سے دھرتی کی وفا کی پیاس بجھا چکی تھیں۔۔۔
مشرق سے سورج کی ابھرتی کرنوں میں گویادھرتی کا عشق پھر سے طلوع ہو رہا تھا۔۔۔!!