کووڈ19 کے کیسز سب سے پہلے چین میں رپورٹ ہوئے اس کے بعد یہ دنیا کے دیگر ممالک کو متاثر کرنے لگی،ایک عجیب سی کیفیت پیدا ہوگئی، کورونا وائرس ایک نئی وباء جو دنیا کے سامنے آگئی، لمحہ بہ لمحہ کورونا کے کیسز رپورٹ ہونے لگے جس سے ایک خوفناک صورتحال بن گئی۔ ابتدائی دنوں میں لوگ زیادہ خوف کا شکار ہو گئے کہ کس طرح کاقیامت ٹوٹ پڑاہے۔ پوری دنیا کے انسانوں کی نقل وحرکت کو مکمل طور پر محدود کردیا گیا، بیشتر ممالک نے لاک ڈاؤن کردیا،اسی طرح پاکستان میں جب کیسز رپورٹ ہونے لگے تو فوری طور پر پہلے سندھ بعد میں تمام صوبوں نے لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا۔
عوام اس وباء کے حوالے سے معلومات کیلئے کسی لمحہ بھی ذرائع ابلاغ سے دور نہیں ہوئے اور خبریں بھی اسی طرح آرہی تھیں یا پیش کی جارہی تھیں کہ لوگوں کے اندر موت کا خوف بیٹھ گیا جس طرح سے اس بیماری کے متعلق بتایا گیا کہ یہ چھونے سے پھیلتا ہے، چندفٹ کے فاصلے یعنی چیخ یا کھانسی کی وجہ سے بھی ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہوکر اسے متاثر کرسکتا ہے اور انتہائی مہلک اور جان لیواثابت ہوسکتا ہے۔ پھر پابندیوں کے اطلاق نے زیادہ ماحول کو خوفزدہ کردیا مگر چند سوالات ہر طبقہ کی جانب سے اٹھائے جانے لگیں کہ یہ بیماری ایک لیبارٹری وار ہے۔
اسے سپرپاورز کے درمیان جنگ قرار دیاجارہا تھا اور بعض اسے قدرتی وباء قرار دے رہے تھے مگر ان سوالات کا حتمی جواب کسی کے پاس نہیں۔اب بھی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں البتہ اس بات کو تقویت زیادہ مل رہی ہے کہ یہ وباء اتناخطرناک نہیں جس طرح سے اسے پیش کیا گیا۔ چونکہ جو لوگ اس سے متاثر ہورہے ہیں انہیں گھروں کے اندر کورنٹائن کرنے کامشورہ ڈاکٹر دے رہے ہیں اس سے قبل ابتدائی دنوں میں جائزہ لیاجائے تو جہاں پر کورونا کے مشکوک افراد کی اطلاع ملتی تو فوری طور پر ایمبولینس اور سیکیورٹی اہلکار اس علاقے کو محاصرے میں لیتے جیسے کوئی خطرناک شہ برآمد کرنے پہنچے ہوں تو کیا۔
اب وائرس ابتدائی دنوں کی نسبت زیادہ مہلک نہیں رہی جو انسانی جان کو نگل جائے۔بہرحال اس عمل نے لوگوں کو وائرس کے حوالے سے مشکوک بنادیا ہے مگر یہ ذمہ داری ماہرین کی بنتی ہے کہ وہ وائر س سے متاثرہ افراد کے متعلق حقائق پر مبنی معلومات عوام کو دیں اگر خدانخواستہ یہ وائرس اتنا ہی مہلک ہے تو لوگوں کو اسپتالوں میں علاج کرانے کی بجائے ٹیسٹنگ کے بعد ایک مسیج یا رپورٹ کا پیپر تھما دیاجاتا ہے کہ کیس مثبت آیا ہے لہٰذا کورنٹائن ہوجائے اس سے آگے نہ تو علاج اور نہ ہی معلومات دی جارہی ہیں کہ انہیں کس طرح کورنٹائن میں رہنا ہے اور اس دوران کون سی ادویات استعمال کرنی ہے جبکہ گھر کے اندر کس طرح سے اپنے وائرس سے دیگر خاندان کے افراد کو بچائے رکھنا ہے جو بہت سے سوالات کو جنم دے رہا ہے۔
اب تو ملک بھر میں لاک ڈاؤن میں نرمی کا فیصلہ کیا گیا ہے اور لوگوں کی بڑی تعداد عید کی خریداری بھی کررہی ہے مگر وائرس کا خاتمہ نہیں ہوا۔ ایسا لگتا ہے کہ شاید اس خوف اور وہم کا خاتمہ ہوچکا ہے جو لوگوں کے اندر پھیلائی گئی تھی۔اس لئے ضروری ہے کہ لوگوں کی پریشانیوں کو بڑھانے کی بجائے انہیں مفید مشورے دیئے جائیں تاکہ غریب اور لاچار عوام کے مسائل میں اضافہ نہ ہو اس دوران نہ جانے کتنے افراد روزگار سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں فاقہ کشی سے لوگ شدید متاثر ہوئے ہیں اور نفسیاتی دباؤ کا بھی شدید شکار رہے ہیں جس کی وجہ اس وباء سے موت کاکم بھوک اور بیروزگاری کا زیادہ رہا ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ ملکی معیشت اور طرز ندگی سمیت صحت کی سہولیات کا موازنہ نہیں کیاجاسکتامگر حقائق تک رسائی ضرور دی جاسکتی ہے تاکہ عوام کی جان کسی بھی طرح سے محفوظ رہ سکے۔