|

وقتِ اشاعت :   May 13 – 2020

ملک بھر میں لاک ڈاؤن میں نرمی سے متعلق فیصلے پر عملدرآمد کا جائزہ لینے کے لیے وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت اجلاس ہوا۔اجلاس میں لاک ڈاؤن سے متعلق فیصلوں پر عملدرآمد اورکورونا وائرس کے پھیلاؤکی شرح کا جائزہ لیا گیا۔اس موقع پر وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ وینٹی لیٹرز کے بہترین استعمال اور اس کے آسانی سے میسر آنے کیلئے مربوط حکمت عملی تیارکی جائے۔انہوں نے کہا کہ معاشی صورتحال، عوام کے مسائل اور دیگر ملکوں کی صورتحال کومدنظر رکھ کر لاک ڈاؤن میں نرمی کی گئی تاکہ معاشی سرگرمیوں اور حفاظتی اقدامات کے درمیان توازن برقرار رکھا جا سکے۔وزیراعظم نے کہا کہ بین الاقوامی طور پر اس امر کا ادراک کیاجارہا ہے کہ لاک ڈاؤن کورونا کے خلاف وقتی عمل ہے، کورونا سے بچاؤ کیلئے حفاظتی اقدامات کوکسی صورت نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔

عمران خان نے ہدایت کی کہ کورونا کے ٹیسٹ کے حوالے سے بعض حلقوں کے خدشات کو دور کیا جائے، عوام کو ترغیب دی جائے کہ وہ خود علامات کی صورت میں ٹیسٹ کرائیں، گھر پر قرنطینہ اختیار کرنے کے حوالے سے لوگوں کو معلومات فراہم کی جائیں۔واضح رہے کہ پاکستان میں کورونا سے متاثرہ افراد کی تعداد 31 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے جبکہ 679 کے قریب انتقال کرچکے ہیں۔بہرحال دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ معاشی اور عوامی مسائل کا موازنہ نہیں کیاجاسکتا یہ خوش آئند عمل ہے کہ لاک ڈاؤن میں نرمی کی گئی اس سے عام مزدوروں کی بڑی تعداد بھوک اور افلاس سے نہ صرف بچ سکے گی بلکہ بیروزگاری کی بڑھتی شرح بھی کم ہوجائے گی کیونکہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں مکمل طور پر بند تھیں صنعتوں اور تجارتی مراکز کی بندش سے عوام کی بڑی تعداد براہ راست متاثر ہ ہوچکی ہے۔

ان کاروبار سے عوام کا روزگار وابستہ تھا اور عوام کی جانب سے یہی مطالبہ کیاجارہا تھا کہ لاک ڈاؤن میں نرمی کی جائے تاکہ ان کی مالی مشکلات کم ہوجائیں۔ چونکہ غریب عوام کا گزر بسرتقسیم کی گئی وقتی راشن سے نہیں ہوسکتا اور بعض ایسے لوگ ہیں جوکسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاسکتے بلکہ عزت کے ساتھ دو وقت کی روٹی کمانا چاہتے ہیں جبکہ وزیراعظم عمران خان نے پہلے روز سے ہی لاک ڈاؤن کے دوران عام لوگوں کی مشکلات بڑھنے کے خدشات کااظہار کیا تھا جو درست ثابت ہوا۔ اور اب وفاقی ا ورصوبائی حکومتوں کی جانب سے لاک ڈاؤن میں نرمی کی گئی ہے جس سے روزگار کے ذرائع بحال ہونے کے ساتھ ساتھ معاشی سرگرمیاں بھی شروع ہوچکی ہیں البتہ ایس اوپیز اور احتیاطی تدابیرکا خیال ضرور رکھاجائے تاکہ عوام اس وباء سے متاثر بھی نہ ہوں اور حکومت دوبارہ سخت لاک ڈاؤن کی طرف نہ جائے۔

چونکہ لوگ معاشی ابتری جیسے حالات کے متحمل نہیں ہوسکتے اس لئے انہیں خودذمہ داری کامظاہرہ کرنا چاہئے جبکہ بڑی صنعتوں سے لیکر چھوٹے کاروباری طبقہ کو بھی ایس اوپیز کا خیال رکھنا چاہئے کیونکہ یہ ان کے جانی ومالی مفاد میں ہے۔ دوسری جانب اس لاک ڈاؤن کی وجہ سے کسی بھی شعبہ میں جن لوگوں کو بیروزگار کیاگیا ہے ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ لاک ڈاؤن میں نرمی سے جو کاروبار کھل چکے ہیں وہ غریب عوام کے روزگار کو بحال کریں اور حکومت بھی اس حوالے سے اقدامات اٹھائے تاکہ لوگوں کو ان کا روزگار مل جائے اوران کے گھروں کا چولہا جلتا رہے۔