کراچی پولیس کی ایک بدنام تاریخ رہی ہے کہ منشیات فروشوں کی سرپرستی وہ کرتی آئی ہے، کئی دہائیوں سے یہ سلسلہ کراچی کے بعض علاقوں کے تھانوں میں چل رہا ہے چونکہ یہ پولیس آفیسران کے لئے کروڑوں روپے کمانے کا بڑا ذریعہ ہیں باقاعدہ طور پر پولیس آفیسران مختلف علاقوں میں تعیناتی کیلئے سفارشیں کراتے ہیں جس کے بعد وہ علاقے کے جرائم پیشہ افراد کے ساتھ مل کر جرائم کرتے ہیں۔
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ سندھ پولیس کے اندر بعض ایسے آفیسران ہیں جو براہ راست جرائم میں ملوث ہیں مگر بدقسمتی سے سیاسی اثر ورسوخ کی وجہ سے ان پر ہاتھ نہیں ڈالا جاتا بلکہ سیاسی پشت پناہی کے ذریعے کرپٹ آفیسران جرائم کو نہ صرف فروغ دیتے ہیں بلکہ انہی سیاسی جماعتوں کے مفادات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے جرائم پیشہ افراد کا سہارا لیتے ہیں جس سے دونوں اپنے کام نکلواتے ہیں جب کام پورا ہوجاتا ہے تو ان جرائم پیشہ افراد کو ان کاؤنٹر کے ذریعے مارکر دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے۔ کراچی کی نوجوان نسل بڑی تعداد میں منشیات جیسی لت میں مبتلا ہے۔
جس کی وجہ سے پورا معاشرہ بری طرح متاثر ہورہا ہے چند آفیسران کے دولت کی لالچ کی وجہ سے کتنے خاندان برباد ہوئے ہیں آج بھی کراچی کے ایسے متعدد کچی آبادی والے علاقے ہیں جہاں پر پولیس کی سرپرستی میں باقاعدہ طور پر منشیات اور دیگر جرائم کے اڈے چلائے جارہے ہیں۔ سندھ حکومت خاص کر پیپلزپارٹی پر ہمیشہ یہ الزام لگتا آیا ہے کہ ان کے مقامی کارکنان پارٹی کے بل بوتے پر یہ سب کچھ کرتے ہیں جس سے پیپلزپارٹی کی ساکھ بری طرح متاثر ہوتی ہے، لیاری اس کی واضح مثال ہے کہ جب امن کمیٹی کی بنیاد رکھی گئی تو اس وقت پیپلزپارٹی کے وزیرداخلہ سمیت اہم رہنماء ان کے یہاں حاضری کیلئے جاتے تھے۔
اور اسی وجہ سے لیاری کے عوام نے 2018ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کو مسترد کرتے ہوئے اس کی جگہ پی ٹی آئی، جماعت اسلامی اور تحریک لبیک کو سپورٹ کرتے ہوئے ووٹ دیا۔بہرحال پیپلزپارٹی کے کراچی میں دو اہم گڑھ لیاری اور ملیرہیں جہاں پر جرائم پیشہ افراد کو شریف النفس لوگوں پر مسلط کیا جاتا ہے، خدارا پیپلزپارٹی اپنی پالیسی پر نظرثانی کرتے ہوئے اپنے ان قدیم ووٹ بینک علاقوں پر توجہ دے وگرنہ آنے والے دنوں میں شاید پیپلزپارٹی کا نام ونشان ان علاقوں سے ختم ہوجائے۔ گزشتہ روز کراچی میں ایک اور افسوسناک واقعہ پیش آیا جہاں پرپولیس آفیسران منشیات کے دھندے میں ملوث پائے گئے۔
واقعہ یہ ہے کہ چند پولیس افسران نے گزشتہ دنوں چند منشیات فروشوں کو گرفتار کیا اور پھر کچھ کو رشوت لے کر چھوڑ دیا، 32 کلوگرام چرس برآمد کی گئی لیکن صرف 8 کلوگرام ظاہر کی گئی، اعلیٰ پولیس افسران کے نوٹس لینے کے بعد ایکشن ہوا۔کراچی پولیس کے بعض افسر اور اہلکار منشیات کے دھندے میں ملوث نکلے، ایس ایچ او ملیر کینٹ، ایس آئی او ملیر کینٹ اور دیگر عملے پر اسی تھانے میں مقدمہ درج کردیا گیا۔ایس ایچ او انسپکٹر وقار احمد آرائیں، ایس آئی او انسپکٹر زاہد سومرو، ہیڈ کانسٹیبل اعجاز لانگھا، اے ایس آئی طارق فاروق، ہیڈ کانسٹیبل مجید امیر، حساس ادارے کا ڈرائیور اسلام نواز اور اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ اہلکار خان جلیل کو گرفتار کرلیا گیا۔
جبکہ دو اہلکار شبیر منگی اور عامر فرار ہیں۔اطلاعات کے مطابق ملیر کینٹ پولیس نے کچھ روز قبل منشیات فروش گرفتار کیے اور 32 کلو گرام چرس برآمد کی، گرفتار منشیات فروشوں میں سے کچھ کو پیسوں کے عوض چھوڑ دیاگیا جبکہ برآمد چرس میں سے صرف 8 کلو گرام چرس ظاہر کی گئی، دیگر گرفتار منشیات فروشوں سے چرس کیلئے بھی مزید رشوت طلب کی گئی۔منشیات فروشوں کو تھانے کی بجائے سعدی ٹاؤن کے ایک مقام پر رکھا گیا، کارروائی کے دوران 13 کلوگرام سے زائد چرس اور دو لاکھ روپے سے زائد رشوت کی رقم بھی برآمد کی گئی۔
رابطہ کرنے پر سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ملیر علی رضا کے مطابق جب اطلاع ملی تو ہم نے فوری طور پر ایکشن لیا، ایس ایچ او کو شوکاز بھی جاری کردیا گیا ہے، افسران اور اہلکاروں کے خلاف مزید محکمانہ کارروائی جاری ہے۔یہ انتہائی افسوسناک خبر ہے جن محافظوں کاکام عوام کے جان ومال کو تحفظ فراہم کرنا ہے وہی عام لوگوں کو منشیات فراہمی کا ذریعہ بن رہے ہیں تو پھر کس سے معاشرہ کی بہتری کی امید لگائی جاسکتی ہے۔ اس لئے سب سے پہلے ذمہ داری سندھ حکومت پر عائد ہوتی ہے کہ جن علاقوں میں منشیات فروشی سمیت دیگر جرائم ہورہے ہیں وہاں کی پولیس سے ریکارڈ طلب کریں اگر کوئی ملوث ہو تو اسے سخت سزا دی جائے تاکہ کوئی اور اس طرح کے سنگین جرائم کا ارتکاب نہ کرسکے۔