|

وقتِ اشاعت :   May 16 – 2020

ملک بھر میں جب سخت لاک ڈاؤن کافیصلہ کیا گیا تو سب سے پہلے تجارتی مراکز کی بندش کو یقینی بنایا گیا، اسی طرح دیگر سرکاری وغیر سرکاری محکموں میں ملازمین کی تعداد کو انتہائی کم رکھا گیا جبکہ صنعتوں،ریسٹورنٹس، تفریحی مقامات،کھیلوں کے میدان،فوڈپوائنٹس کو بھی اس لئے بند کیا گیا تاکہ کورونا وائرس کی تیزی سے پھیلاؤ کو روکاجاسکے، ایک ماہ سے زائد تک یہ پابندیاں برقرار رہیں مگر دوسری جانب یہ خدشہ بھی اپنی جگہ برقرار تھا کہ ان پابندیوں کے باعث عوام کی بڑی تعداد روزگار سے ہاتھ دھوبیٹھے گی اور تاجر برادری بھی دیوالیہ ہوجائے گی۔

نتیجہ ملکی معیشت پر انتہائی منفی اثر کے طور پر پڑے گا مگر انسانی جانوں کی اہمیت معیشت سے کئی گنا زیادہ اہمیت رکھتی ہے اس لئے لاک ڈاؤن کامشکل ترین فیصلہ کیا گیا مگر لوگوں کی معاشی حالات کے پیش نظراس میں نرمی کافیصلہ کیا گیا جوکہ گزشتہ چند روز سے جاری ہے جس کا بنیادی مقصد عوام کو ریلیف فراہم کرنا ہے تاکہ ان کی مشکلات میں کمی آسکے۔ وزیراعظم عمران خان بارہا اس حوالے سے کہہ چکے ہیں کہ لاک ڈاؤن سے ہماری بہت بڑی آبادی معاشی حوالے سے متاثر ہوگی جس کی ہمیں فکر ہے کہ صورتحال انتہائی گھمبیر نہ ہوجائے۔

وزیراعظم عمران خان کی یہ کوشش رہی ہے کہ لاک ڈاؤن میں نرمی کرتے ہوئے ایس اوپیز بنائی جائیں اور سب اس پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں مگر المیہ یہ ہے کہ ہماری عوام ہر معاملہ کو دیگر مسائل کی طرح آسان لیتی ہے جس کی وجہ سے خود بھی مشکل میں پڑجاتی ہے اور حکومت کو بھی مصیبت میں ڈالا جاتا ہے حالانکہ دنیا کے بیشتر ممالک نے پاکستان سے بھی زیادہ سخت لاک ڈاؤن کیا تھا جس کا نصف فیصد بھی یہاں سختی نہیں کی گئی مگر عوامی لاپرواہی اسی طرح برقرار ہی۔ المیہ یہ ہے کہ عید کی خریداری اور تاجروں کی مشکلات کو کم کرنے کیلئے مارکیٹس کو کھولنے کی اجازت دیدی گئی ہے۔

مگر ایس اوپیز کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں جس کے بعد ان کے خلاف بہ امر مجبوری کارروائی عمل میں لائی جارہی ہے۔ گزشتہ روزکراچی اور لاہور کے بازاروں میں کورونا وائرس کے حوالے سے حفاظتی اقدامات پر عمل نہ کرنے پر انتظامیہ نے کارروائی کرتے ہوئے متعدد مارکیٹیں سیل کردیں۔لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد کراچی میں صبح 6 سے دوپہر 12 بجے تک تو معاملہ قابو میں رہتا ہے لیکن اس کے بعد عید کی خریداری کیلئے شہریوں کی بڑی تعداد مارکیٹوں کا رخ کرلیتی ہے۔ شہریوں کی جانب سے ماسک، دستانے، سیناٹائزر اور سماجی فاصلے سمیت دیگر احتیاطی تدابیر بھی نظرانداز کی جارہی ہیں اور والدین کے ساتھ بچے بھی بازاروں میں نظر آرہے ہیں۔ظاہر سی بات ہے کہ حکومت اگر ریلیف دے سکتی ہے تو کارروائی کا حق بھی رکھتی ہے۔

تاجر برادری کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایس اوپیز پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں،کسی ایسے گاہک کو دکانوں اور شاپنگ مالز کے اندر داخلے کی اجازت نہ دیں جو ماسک اور گلوز کے بغیر خریداری کیلئے آتے ہوں۔ بعض فیصلے تاجر تنظیموں کو خود کرنے ہونگے اگر تاجر برادری بھی لاپرواہی کا مظاہرہ کرے گی تو یقینا حکومت آگے جاکر مزید سخت فیصلے کرنے پر مجبور ہوگی جس کے بعد حکومت کو موردالزام نہیں ٹہرایاجاسکتا۔ لہذا عوام ذمہ دار شہری کا ثبوت دیتے ہوئے حکومت کے ساتھ اس مشکل ترین حالات میں تعاون کریں اور خودکو بچانے کیلئے احتیاطی تدابیر اپنائیں تاکہ وہ اس خطرناک وباء کا شکار نہ ہوں۔