|

وقتِ اشاعت :   May 19 – 2020

“ہم نرس اس وقت ایک بارڈر پر کھڑے جنگ لڑ رہے ہیں، زندگی اور موت کے درمیان کی جنگ؛ کیوں کہ ہم خود غیر محفوظ ہیں اور آنے والے مریضوں کی خدمت ہمارا فرض ہے، جسے ہم اپنی پوری کوشش سے نبھا رہے ہوتے ہیں۔”حرا بارکزئی، کا تعلق کراچی شہر کے علاقے لیاری سے ہے۔ وہ اس وقت ساؤتھ سٹی ہسپتال، کلفٹن میں بطورِ نرس کام کر رہی ہے۔ ان کے مطابق اب تک ساؤتھ سٹی ہسپتال میں کرونا کے مریضوں سے ان کا واسطہ نہیں پڑا ہے جبکہ ہسپتال میں quarantine شروع سے بنا دیا گیا ہے اور ان کی ڈیوٹی بھی مستقل وہاں لگائی جا رہی ہے۔ وہ سندھ حکومت کے اقدامات سے خوش نہیں ہیں، کیونکہ ان کے مطابق وفاقی حکومت کے 12 ہزار نہ تو پورے کنبہ کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں اور نہ ہی سندھ حکومت نے ان کے علاقے کے عوام کے لیے ایسا کچھ کیا ہے کہ لوگ وبا میں مطمئن ہو کر گھروں میں بیٹھ سکیں۔

اس لیے وہ نہ صرف اپنے بلوچ قوم کو بلکہ علاقہ میں رہنے والے تمام افراد کو اپنی مدد آپ کرنے کا پیغام دینا چاہتی ہے۔ “جس ہسپتال میں میری جاب ہے وہاں میرا واسطہ ایلیٹ کلاس کے لوگوں سے پڑتا ہے۔ انہیں کرونا وائرس سے حفاظت کرتے ہوئے دیکھ کر اپنے علاقے لیاری کے بارے میں سوچتی ہوں کہ یہاں کے لوگ تو اب تک ناواقف زندگی گزار رہے ہیں، اپنے پیٹ اور روٹی کو لے کر پریشان ہیں۔ اپنی مدد آپ ہی کر کے زندہ رہ سکیں گے۔”وہ اس شعبے سے اپنے علاقے کے غریب لوگوں میں صحت کے حوالے سے کم علمی اور سہولیات کے فقدان کو دیکھتے ہوئے منسلک ہوئیں۔ لیاری کے جن چھوٹے علاقوں سے ان کی وابستگی ہے وہاں آج بھی لوگ زیادہ تر حکومتی اداروں سے مستفید ہونے کے خواہش مند ہیں۔ مگر چونکہ اداروں کا نظام اس طرح مستحکم یا systematic نہیں ہے جیسے کہ ہونا چاہیے۔ اس لیے لوگوں کو پرائیویٹ ہسپتالوں میں رسائی کرنی پڑتی ہے۔

“میرا پیغام میرے بلوچ قوم اور تمام انسانوں کے لیے ہے کہ پلیز اپنی مدد آپ کریں، گھروں میں بیٹھ کر خود کو اور اپنے اپنوں کو محفوظ رکھیں۔”ماہ نور بلوچ ایک گریجویٹ ہیں۔ وہ ضلع پنجگور سے سفر کرتے ہوئے کوئٹہ شہر نرسنگ کرنے آئیں۔ ماہ نور کے مطابق، ان کے علاقے میں کوئی بھی فیمیل ڈاکٹر یا نرس موجود نہیں تھے۔ اس لیے اس پیشے کو اپنا کر اس نے لوگوں کی خدمت کرنے کا فیصلہ کیا۔ ماہ نور اپنے ساتھ نرسنگ کے شعبے میں اور بھی دوستوں کو لانے میں کامیاب ہوئی تاکہ آگے چل کر وہ اپنے علاقے کے لوگوں کی اچھے سے خدمت کر سکیں۔”اس وقت ہر طرف ایک خوف کا سما ں ہے، نہ صرف ہمارے ہاسٹل میں بلکہ ہسپتال میں بھی جہاں ہم کام کرتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ہم اپنے ڈیوٹی آرڈر کے مطابق کام کر رہے ہوتے ہیں۔”

اِن کے مطابق خوف کے عالم میں کام کرنا پڑتا ہے جو کہ ان سب کے لیے غیر محفوظہ ہے۔ کچھ لوگ اپنے جاب سے مجبور ہو کر اور کچھ اپنے پیشے سے لگاؤ کے باعث اپنے اپنے فرائض انجام دے رہے ہوتے ہیں۔”ہمارا علاقہ تو ایران کے بارڈر پر ہے، اس لیے حکومت نہ صرف بارڈر مکمل بند کروائے بلکہ وہاں اس وبا کی روک تھام کے لیے سختی سے کام کرے”ماہ نور کے مطابق چونکہ پنجگور، بلوچستان کا ایک ایسا ڈسٹرکٹ ہے جو ایران کے بارڈر پر ہے۔ وہ بارڈر سے آنے والے لوگوں کو ہی کرونا وائرس کی بنیادی وجہ گردانتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلے سے علاقے میں صحت کی سہولیات موجود نہیں ہیں۔

تو اب کیسے اس خطرناک، جان لیوا مرض سے بچاؤ کے لیے فوری اقدامات ہو پائیں گی۔ ماہ نور بلوچ کے مطابق کوئٹہ شہر میں نرس یا ڈاکٹر حضرات کے لیے کسی بھی قسم کے کٹ دستیاب نہیں ہیں، لیکن سب اپنی ڈیوٹی مجبوری میں پورا کر رہے ہیں کیونکہ یہ وہ شعبہ ہے جس کا مقصد ہی مریض کی خدمت کرنا ہوتا ہے۔ “بلوچ خاندانوں میں اس شعبے کی کوئی عزت نہیں ہے، لیکن میں اپنی بہنوں کو کہنا چاؤں گی کہ اس میں کوئی بْرائی نہیں۔ بس اپنا آپ مضبوط ہونا چاہیے۔”ثمینہ بلوچ، ضلع جعفرآباد کے اوستہ محمد تحصیل سے تعلق رکھتی ہیں، اس وقت وہ کوئٹہ شہر میں کام کر رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اوستہ محمد میں آج تک سرداری نظام ہے، جہاں جمالی سردار حکومت کرتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ وہاں کی کمیونٹی جمالی خاندان کی بات مانتی ہے۔

تو حکومتِ وقت کو چاہیے کہ وہ جمالی خاندان کے توسط سے علاقے بھر میں اعلانات کروائے تاکہ وہاں کے لوگ اس جان لیوا بیماری سے بچ سکیں۔ اْن کا کہنا ہے کہ ضلع میں کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کک لیے سہولیات تو دور کی بات اب تک ٹیسٹنگ کٹ ہی موجود نہیں ہیں۔”ہمارے شہر بلکہ ضلع بھر میں کرونا وائرس سے متعلق کوئی معلومات نہیں ہے۔ وہ سب آج بھی پہلے جیسے ہی رہ رہے ہیں۔ بلکہ انہیں تو لگتا ہے کہ یہ ایک افواہ پھیلایا جا رہا ہے۔ حکومت کو عام لوگوں کو معلومات دینے کے لیے جمالی خاندان کی مدد لینی چاہیے “

جعفرآباد، جہاں اب تک سرداری اور جاگیرداری نظام کے ملبے تلے لوگ کچلے جاتے ہیں۔ جہاں ایک مستقل جنگ جاری ہے، اسی جنگ کا ثمر ہے کہ بہت سارے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی محنت کی وجہ سے اب جا کر کہیں لڑکیوں کو تعلیم اور کچھ حد تک جاب کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ ثمینہ کے مطابق اس شعبے میں رہ کر ان کا واسطہ مختلف قسم کے لوگوں سے پڑتا ہے، جس میں اچھے بْرے ہر طرح کے انسان شامل ہوتے ہیں۔ لیکن ایک ڈر آج تک وہ اپنے ساتھ لے کر اس کام کو سر انجام دے رہی ہے کہ گھر، خاندان یا کمیونٹی کے لوگوں کو اس کام کے طریقہ کار اور اس شعبے میں ملنے والے مختلف لوگوں سے رابطے سے متعلق اگر پتہ چل جائے تو وہ کبھی بھی ثمینہ کو جاب کر کے خود کفیل نہیں رہنے دیں گے۔ جبکہ ثمینہ اپنے قوم کی لڑکیوں کو زیادہ سے زیادہ اس شعبے میں آتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہے۔

“ہمارے کمیونٹی کے لوگوں میں نرسنگ کے شعبے کو بہت غلط سمجھا جاتا ہے۔ لیکن بہت ساری لڑکیاں اب باہر نکلی ہیں جس کی وجہ سے میری فیملی نے مجھے بھی کام کرنے کی اجازت دی ہے۔”صفورہ مصطفیٰ، حب چوکی شہر، بلوچستان سے تعلق رکھتی ہے۔ ان کے مطابق نرسنگ نہ صرف ایک شعبہ بلکہ ایک آرٹ ہے، جس کے ذریعے نرس مریضوں کی دیکھ بھال کرتے ہوئے ان کا خیال رکھتے ہیں۔ اور اپنی کوشش سے انہیں جلدی صحت یاب ہونے کے لیے ان کی اور ڈاکٹروں کی مدد کرتے ہیں۔”بلوچستان میں نرسنگ کے شعبے کو وسعت دینے کی بے حد ضرورت ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بلوچستان میں نظامِ صحت اب تک مضبوط نہیں ہے، خصوصاً خواتین کے صحت کے حوالے سے متعلق بے شمار مسائل ہیں جن پر مقامی افراد کو خود بھی فوری کام کرنے کی ضرورت ہے۔”(جاری ہے)