شاہینہ تمہاری سوچ زندہ ہے!

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

ویسے تو اس سماج میں روزانہ ہر انسان خواہ وہ مرد ہو، عورت ہو یا کہ کوئی بھی جنس، مذہب، زبان، رنگ، نسل، ذات، فرقے اور طبقات کی وجہ سے مر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن عورتوں کو صنفِ نازک، بے بس، ڈرپوک جیسے القابات نواز کر انہیں ذہنی طور پر اتنا کمزور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ کئی جگہوں پر چاہ کر بھی اپنا دفاع نہیں کر سکتی۔ اس بے بسی کے احساس سے انہیں لگتا ہے کہ وہ واقعی کوئی دوسری مخلوق ہیں جن کو protect کرنے کے لیے خدا نے مرد ذات کو بنایا ہے لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ یہی مرد ذات اس کے لیے ایک وحشی کا روپ دھار لیتا ہے۔

آن لائن کلاسز: ایچ ای سی کو کیا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے؟

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

“پاکستان میں اکثریتی آبادی دیہی علاقوں پر مشتمل ہے۔ گلگت بلتستان سے لے کر خیبر پختونخوا کے اکثریتی قبائلی علاقے اور جنوبی پنجاب بھر کے طلبہ بھی ایچ ای سی کے اس فیصلے کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہاں ذمہ داران کو مزید غفلت کا مظاہرہ کرنے کے بجائے ہم طلبہ کے حقیقی مسئلوں پر اب فوری غور کرنا چاہیے۔” “ہر وہ جگہ جہاں طلبہ اور ہم اساتذہ کے لیے انٹرنیٹ کی سہولت موجود نہیں ہے وہاں احتجاج ہوگا، کیونکہ احتجاج کرنے والے جانتے ہیں کہ یہ ان کے ساتھ نا انصافی ہے۔”

آن لائن کلاسز: ایچ ای سی کو کیا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے؟

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

کرونا وائرس کی وباء نومبر کے شروع میں چائنا سے ہوتے ہوئے فروری کے وسط میں پاکستان کے دروازے پر آکر دستک دے گئی، اور دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں لوگوں کو اس وبا نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ بہت سارے لوگ اس وبا کی زد میں آکر اپنی زندگی کی بازی ہار گئے، اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ میڈیکل کے شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے اپنی زندگیوں کی پرواہ کئے بغیر بہت سی قیمتی جانوں کو بچایا اور اب تک اس پر کام جاری و ساری ہے۔ مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کرونا وائرس سے بچاؤ کے خلاف جنگ جاری ہے تو پھر عید الفطر کے بعد کیوں اس وبا کا پھیلاؤ اور بھی بڑھ گیا ہے؟

دورِ جدید اور بلوچ نرس

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

“ہم نرس اس وقت ایک بارڈر پر کھڑے جنگ لڑ رہے ہیں، زندگی اور موت کے درمیان کی جنگ؛ کیوں کہ ہم خود غیر محفوظ ہیں اور آنے والے مریضوں کی خدمت ہمارا فرض ہے، جسے ہم اپنی پوری کوشش سے نبھا رہے ہوتے ہیں۔”حرا بارکزئی، کا تعلق کراچی شہر کے علاقے لیاری سے ہے۔ وہ اس وقت ساؤتھ سٹی ہسپتال، کلفٹن میں بطورِ نرس کام کر رہی ہے۔ ان کے مطابق اب تک ساؤتھ سٹی ہسپتال میں کرونا کے مریضوں سے ان کا واسطہ نہیں پڑا ہے جبکہ ہسپتال میں quarantine شروع سے بنا دیا گیا ہے اور ان کی ڈیوٹی بھی مستقل وہاں لگائی جا رہی ہے۔ وہ سندھ حکومت کے اقدامات سے خوش نہیں ہیں، کیونکہ ان کے مطابق وفاقی حکومت کے 12 ہزار نہ تو پورے کنبہ کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں اور نہ ہی سندھ حکومت نے ان کے علاقے کے عوام کے لیے ایسا کچھ کیا ہے کہ لوگ وبا میں مطمئن ہو کر گھروں میں بیٹھ سکیں۔