|

وقتِ اشاعت :   June 21 – 2020

“پاکستان میں اکثریتی آبادی دیہی علاقوں پر مشتمل ہے۔ گلگت بلتستان سے لے کر خیبر پختونخوا کے اکثریتی قبائلی علاقے اور جنوبی پنجاب بھر کے طلبہ بھی ایچ ای سی کے اس فیصلے کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہاں ذمہ داران کو مزید غفلت کا مظاہرہ کرنے کے بجائے ہم طلبہ کے حقیقی مسئلوں پر اب فوری غور کرنا چاہیے۔” “ہر وہ جگہ جہاں طلبہ اور ہم اساتذہ کے لیے انٹرنیٹ کی سہولت موجود نہیں ہے وہاں احتجاج ہوگا، کیونکہ احتجاج کرنے والے جانتے ہیں کہ یہ ان کے ساتھ نا انصافی ہے۔”

“اِن تمام علاقوں میں آن لائن کلاسز کے لیے احتجاج کا مسئلہ صرف انٹرنیٹ کی عدم دستیابی ہی نہیں، بلکہ بجلی اسمارٹ فون، لیپ ٹاپ، اور دیگر ضروریات بھی ہیں جو ہمارے والدین بھی اپنے معاشی بدحالی کے باعث ہمیں مہیا نہیں کر سکتے۔” جہاں تک بات کی جائے بلوچستان کی تو چونکہ بلوچستان سب سے زیادہ پسماندگی کا شکار ہے۔ رقبے کے لحاظ سے بڑا صوبہ ہونے کے باوجود وہ آبادی میں سب سے کم ہے، جس کی کل آبادی کا سب سے بڑا حصّہ کوئٹہ شہر میں بستا ہے، اسکے بعد شاید لسبیلہ اور خضدار ڈسٹرکٹ آتے ہیں۔

اور یہی وہ تین اہم ڈسٹرکٹ ہیں جہاں پر لوگوں کو شاید ہی آرام سے انٹرنیٹ استعمال کرنے کی سہولت موجود ہو۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر اِن تین ڈسٹرکٹ میں کتنے فیصد لوگ ہیں جو کہ طلبہ وطالبات ہیں اور کتنے فیصد ان میں سے اساتذہ ہیں؟ دوسرا اہم سوال یہ کہ ان طلبہ و طالبات میں سے کتنے فیصد لوگ ہیں جو معاشی طور پر مستحکم ہیں اور اپنے انٹرنیٹ کے لیے تمام اخراجات (اسمارٹ فون, لیپ ٹاپ سمیت) برداشت کر سکتے ہیں؟ تیسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کتنے گھنٹے اْن کو بجلی کی سہولت فراہم کی جاتی ہے، کہ وہ اپنے دیئے گئے اسائنمنٹ کو کروائیں اور کر سکیں؟

اور مزید اْن میں سے کتنے فیصد literate ہو کر انٹرنیٹ کو استعمال کرتے ہیں؟یقیناً جواب یہی آتا ہے کہ تمام بلوچستان کے طلبہ، طالبات یا اساتذہ تو ان تین ڈسٹرکٹ میں موجود نہیں ہیں۔ معیشت کی اگر بات کی جائے تو یہ یونائیٹڈ نیشنز کی اپنی رپورٹ ہے کہ پاکستان میں بلوچستان وہ صوبہ ہے جو غربت میں سب سے پہلے نمبر پر آتا ہے۔ بجلی پاکستان میں جہاں کراچی شہر میں عام طور پر روزانہ آٹھ سے دس گھنٹے کے لیے نہیں ہوتی تو بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے میں شہروں میں بھی پندرہ سے اٹھارہ گھنٹے بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔ اورکبھی کبھی یہ سلسلہ پندرہ دن تک پہنچ جاتا ہے اوربجلی کی فراہمی معطل ہو جاتی ہے۔ اور تعلیمی پسماندگی میں بھی بلوچستان ہی سب سے آگے ہے۔

“ایک بڑی تعداد میں بچے دور دراز کے علاقوں سے کوئٹہ علم کے حصول کے لیے آتے ہیں۔ بلوچستان یونیورسٹی، سردار بہادر خان یونیورسٹی یا آئی ٹی یونیورسٹی میں نصف تعداد ان بچوں کی ہے جو اندرونِ بلوچستان سے آتے ہیں اور ان سب کے لیے آن لائن کلاسز لینا ناممکن بات ہے۔ المیہ یہ ہے کہ تربت، گوادر، نوشکی، خضدار، پشین، لورالائی اور سبی کی یونیورسٹیز سے تو پھر کلاسس کا اجراء نا ممکن بات ہے۔ ان تمام علاقوں میں انٹرنیٹ پی ٹی سی ایل اور موبائل نیٹ ورک سروسز نہایت خستہ حالت میں ہیں۔”

” یہ سراسر زیادتی ہے، کیونکہ ہمارے بچے اِن سہولیات سے محروم ہیں۔”


بلوچستان میں شدید غصے کی سب سے بڑی وجہ بنیادی سہولیات سے محرومی ہے۔ جدید دور میں بھی بلوچستان کے لوگ تعلیمی پسماندگی کا شکار ہیں۔ یہاں پالیسی میکرز اب تک اچھی پالیسی بنا کر پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں، اپنے مسائل کے لیے آواز اٹھانے پر لوگ ہمہ وقت سرکار یا سردار کی نظر کئے گئے ہیں۔ لیکن حقوق کے لیے آواز اٹھانا، پرامن احتجاج کرنا چونکہ انسانی حقوق میں شامل ہے اس لیے بلوچستان کے طلبہ وطالبات ایک بار پھر تمام شہروں اور دیہاتوں سے سراپا احتجاج ہیں کہ آن لائن کلاسز کا فیصلہ واپس لے لیا جائے یا ان کے مطالبات منظور کئے جائیں۔

*کیا ایچ ای سی نے جامعات اور فیکلٹی سے رابطے کئے؟*

ہائر ایجوکیشن کمیشن کے آن لائن کلاسز اور امتحانات کا اعلان کرنا نہ صرف طلبہ و طالبات بلکہ اساتذہ کرام کے لیے بھی ایک حیران کن بات ہے۔ پچھلے تین سے چار ماہ کے دوران یا اس سے پہلے بھی کبھی ایچ ای سی نے اپنے strategy یا پالیسیوں کے متعلق جامعات سے کھل کر بات نہیں کی۔ بلکہ ایچ ای سی نے پچھلے بجٹ کی کٹوتی پر ہی تمام جامعات کو اپنے اخراجات خود برداشت کرنے کا حکم دے دیا تھا۔ اب بھی ایچ ای سی کے حکم سے آن لائن ٹریننگ کے نام پر تمام اساتذہ حضرات کو ایک دن کے ٹریننگ کے نام پر دراصل کچھ گھنٹوں کے لیے orientation دی گئی۔

اس orientation میں انہیں بتایا گیا کہ کیسے انہوں نے ایک ہی طریقہ کار کو استعمال کرتے ہوئے مائیکروسافٹ آفس – 360 ٹیم کلاس روم کے سافٹ ویئر کے ذریعے اپنے لیکچرز پورے پاکستان بھر کے طلبہ کے لیے conduct کروانے ہیں۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہائر ایجوکیشن کمیشن اس بات سے مطمئن ہے کہ تمام کے تمام اساتذہ جو مستقل ایک عرصے سے حقیقی کلاسز میں جا کر اپنے لیکچرز ڈیلیور کرواتے آرہے ہیں، وہ کچھ گھنٹوں کے orientation online سے وہی کوالٹی ڈیلیور کر پائیں گے؟ اگر ہاں بھی تو اساتذہ اپنے تمام طلبہ طالبات کو وہی ٹریننگ کیسے دیں گے تاکہ وہ بھی آن لائن کلاسز کے لیے نہ صرف تیار ہوں بلکہ وہ اس سافٹ ویئر کے استعمال کے طریقہ کار کو سمجھ سکیں؟

“بلوچستان کے جتنے بھی یونیورسٹیوں سے ایچ ای سی کے روابط ہوئے ہیں انہیں بلوچستان کے جامعات کی طرف سے بہت اچھے سے یہ معلومات فراہم کی گئیں کہ یہاں ژوب سے گوادر، نصیر آباد سے مچ، بسیمہ، واشک، چاغی، دالبندین، اور پورے مکران ریجن میں زوم، گوگل کلاس روم یا کسی بھی دیگر ایپس یا سافٹ ویئر سے کلاسز کا اجراء ناممکن ہے۔ کیونکہ یہاں سب سے پہلے تو موبائل نیٹ ورک ہی دستیاب نہیں ہیں تو انٹرنیٹ کا تصور کیسے کیا جائے اور بجلی کی فراہمی پر تو بات نہ ہی کریں۔”

“ہم اسٹاف کا مسئلہ آدھا تیتر اور آدھا بٹیر والا ہے، ایچ ای سی نے ہمارے انتظامیہ کو صاف کہہ دیا تو اب ہم نے ہر صورت اس پر عمل کرنا ہے۔”

“بلوچستان میں فیکلٹی کے لوگ ڈرے ہوئے لگتے ہیں، وہ بات تو کرنا چاہتے ہیں مگر انہیں لگتا ہے کہ بات کرنے سے ان کے نام سامنے آجائیں گے۔ ایڈمنسٹریشن کی طرف سے ٹیچرز کو بتایا تک نہیں کہ ایچ ای سی کی طرف سے کیا پیش رفت ہو رہی ہے، صرف نوٹیفیکیشن جاری کئے جاتے ہیں اور خواتین ٹیچرز کو تو خاص کر ignore کیا جاتا ہے۔”

“ہمیں نہیں لگتا کہ کسی یونیورسٹی سے ایچ ای سی کے رابطے ہوئے ہوں گے، ورنہ ہمارے اساتذہ اور انتظامیہ کو بلوچستان کے حالات کا بخوبی اندازہ ہے۔”
*طلبہ کے کیا مطالبات ہیں؟*

طلبہ وطالبات سب سے پہلے تو ہائر ایجوکیشن کمیشن سے آن لائن کلاسز کے لیے لئے گئے فیصلے کو واپس لینے کی بات کر رہے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ بہت سارے solutions alternativeبھی پیش کر رہے ہیں، جن پر عمل درآمد کر کے شاید ایچ ای سی اپنے لئے گئے اس فیصلے کو کارآمد ثابت کرنے میں کسی حد تک کامیاب ہو پائے گا۔ مگر یہاں بات آتی ہے انفرا اسٹرکچر، یوٹیلیٹیز، اندرونی اور بیرونی سیاست، معیشت، دفاع ہر ایک ادرادے کی، تو کیا ایچ ای سی کے لیے یہ سب کرنا آسان ہو پائے گا؟

“ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے لیکچرز ہمیں ڈی وی ڈی کی صورت میں دیئے جائیں۔”

“تمام علاقوں میں مفت انٹرنیٹ کے ساتھ ساتھ طلبہ کو بجلی کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ اس کے علاوہ ہمیں لیپ ٹاپ یا تو اسمارٹ فون مہیا کئے جائیں کہ ہم بہ وقت اپنے اسائنمنٹ کو مکمل کر سکیں۔ تاکہ ہم بھی وہی سیکھ سکیں جو کہ بڑے شہروں کے بڑے گھرانوں میں رہنے والے طلبہ اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے اپنے لیکچرز لے کر سیکھ رہے ہیں۔”

“اگر انٹرنیٹ اور بجلی کی فوری فراہمی ممکن نہیں تو ہمارے تعلیمی سال کو پروموٹ کیا جائے، اور اگر یہ بھی ممکن نہیں تو ہمارے سال کی فیسf of wave کی جائے، کیونکہ یہاں ہمارے تعلیمی سال کے ساتھ ہماری فیس بھی ضائع ہو رہی ہے۔”

*چند تجاویز اور ایچ ای سی کا لائحہ عمل*

ہائر ایجوکیشن کمیشن کے لئے گئے فیصلے پر جہاں طلبہ طالبات نے بہت سارے solutions alternativeبتائے وہاں اساتذہ حضرات خاص کر انفارمیشن ٹیکنالوجی سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے بھی چند تجاویز پیش کیں۔ جو یقیناَ solutions scientific ہیں۔ “ایسے سافٹ ویئر کی فراہمی کو ممکن بنایا جائے جس سے بچے مستفید ہو سکیں، جو بچے آن لائن نہیں پڑھ سکتے ان کے لیے اساتذہ اپنے آڈیو/ویڈیو لیکچرز اور تمام مواد کی فراہمی کو یقینی بنائیں، یا تمام مواد انہیں بذریعہ سی ڈی فراہم کئے جائیں۔”

“تمام اسٹوڈنٹس کے لیے کسی ایسے موبائل ایپ کو بنایا جائے جہاں وہ اپنے لیکچرز باآسانی موبائل فون کے ذریعے لے سکیں۔ چونکہ جہاں جہاں انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب نہیں ہے اسکے پیچھے concerns security بتائے جاتے ہیں، لہذٰا اْن علاقوں میں حکومت پی ٹی اے کی مدد سے تمام ایپس اور نیٹ ورک سروسز بند کروا کے صرف اْس ایک ایپ کو allow کرے جس پر اسٹوڈنٹس اپنے لیکچرز لے سکتے ہوں اور اسائنمنٹ submit کروا سکتے ہوں۔ اس کے لیے سب سے پہلے انہیں اعلیٰ کوالٹی کے اسمارٹ فون فراہم کئے جائیں۔”

اندازے کے مطابق ایچ ای سی اور جامعات کے درمیان آڈیو/ویڈیو لیکچرز اور سی ڈی/ڈی وی ڈی کی فراہمی سے متعلق پیش رفت ہو رہی ہے، لیکن اب تک ایچ ای سی کوئی واضح پالیسی نہیں دے سکی۔ جہاں تک بات ان تجاویز پر عمل درآمد کی ہے تو اس سلسلے میں ایچ ای سی کو حکومتِ پاکستان، دفاعی تنظیموں اور پی ٹی اے کے ساتھ مل کر کوئی واضح پالیسی ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ یہ بہت سارے اداروں کیتعاون سے ہی ممکن ہو پائے گا۔ حکومت کو تمام اسٹوڈنٹس کو نہ صرف اسمارٹ فون بلکہ اسے استعمال میں لانے کے لیے نیٹ ورک سروسز کمپنیوں سے بھی روابط اختیار کر کے ایپس کے استعمال کو مفت یا سستا ترین بنانا پڑے گا۔

اور اس کے ساتھ ساتھ بجلی کی فراہمی کو بھی یقینی بنانے کے لیے حکومت وقت کے ساتھ مل کر جامع پالیسی ترتیب دینی پڑے گی۔ ایچ ای سی کو سی ڈیز یا ڈی وی ڈیز بر وقت اسٹوڈنٹس تک پہنچانے اور انہیں اپنے اسائنمنٹ جمع کرنے کے لیے ایک جامع پلان دینا پڑے گا۔ ایچ ای سی کی پالیسیوں کے خلاف تمام جامعات کے انتظامیہ کو اپنے فیکلٹیز بلخصوص ٹیچرز کو اعتماد میں لیتے ہوئے اپنا مضبوط ردعمل ظاہر کرنا ہوگا۔ کہا جاتا ہے کہ دراصل ایچ ای سی کا یہ فیصلہ تعلیمی سال کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے لیا گیا ہے۔

لیکن اگر ایچ ای سی واقعی اس متعلق سنجیدہ ہے کہ تمام پاکستان کے طلبہ اس condition pandemic کے باوجود بھی اپنے تعلیمی عمل کے ساتھ منسلک رہیں اور ان کا تعلیمی تسلسل نہ صرف برقرار رہے بلکہ وہ سب ایک جیسی تعلیم تک رسائی حاصل کریں تو اْسے حکومت پاکستان کے ساتھ ساتھ باقی اداروں اور بلخصوص جامعات کو اعتماد میں لے کر اپنا موقف تبدیل کر کے ایک مضبوط لائحہ عمل اختیار کرنا پڑے گا جس کے لیے طلبہ اور اساتذہ خود اپنے تجاویز پیش کر رہے ہیں۔