|

وقتِ اشاعت :   April 28 – 2024

لاہور/کوئٹہ:ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچ نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشوں کو پھینکنے کا سلسلہ بدستور جاری ہے حتیٰ کہ اپنی ماں بیٹے کو نہیں پہچان رہی ہے کیونکہ مقتول کے چہرے کو اس طرح مسخ کیا جاتا ہے تاکہ کوئی اسے پہچان نہ جائے طاقت کے زور پر مظلوموں کے وسائل کو لوٹنے کا سلسلہ بدستور جاری ہے بلوچوں کے وسائل کو لوٹنے اور جنگ کے اثرات کو دیرپا بنانے کیلئے ایسے مظالم کئے جاتے ہیں

تاکہ اس کو بہت دیر تک یاد رکھا جاسکے حتیٰ کہ خواتین اس جنگ میں سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں خواتین اپنے پیاروں کی صورت میں سب سے زیادہ قربانیاں دے رہے ہیں بلوچ نوجوانوں کے والدین اپنے بیٹوں کی قربانی دیکر یہ ثابت کررہے ہیں کہ وہ جبر کے سامنے سر نہیں جھکائیں گے دوسری جنگ عظیم سے لیکر نوآبادیاتی علاقوں میں ظلم کے انتہاء ہے جس طرح جنگ زدہ علاقوں میں خواتین کی حقوق کیلئے آواز بلند کی جاتی ہے بد قسمتی سے بلوچ خواتین کے لئے کوئی آواز اٹھانے کیلئے تیار نہیں میں سمجھتی ہوں آج کے اس جدید دور میں بھی بلو چ خواتین سب سے زیادہ مظلوم ہیں اگر ہم بلوچستان میں جاری تنازعے کا ذکر کریں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے

بلوچ نوجوان اپنے وسائل کو لوٹنے کے راستے میں رکاوٹ ہیں حتیٰ کہ اپنی جانوں کی قربانی بھی دے رہے ہیں ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ کا کہنا تھا کہ بلوچ مائیں بہنیں اور بیویاں گزشتہ 20برسوں سے اپنے پیاروں کی راہ تک رہے ہیں دوسری جانب آواران سمیت دیگر علاقوں میں بلوچ خواتین کی آواز کو دھبانے کیلئے کوششیں کی جارہی ہیں لیکن بلوچ خواتین خاموشی کی بجائے اپنے حصے کی قربانی دے رہے ہیں انہوں نے کہا کہ بولان،مچھ اور آواران میں بلوچ خواتین کو ان کے گھروں پر نشانہ بنا یا جاتا ہے بہت سی خواتین کو اغواء کر کے فوجی کیمپوں میں لے جا کر ان کے مردوں پر نفسیاتی دبائو ڈالا جاتا ہے جہاں ان خواتین پر ظلم اور تشدد کیا جاتا ہے ایسے بھی واقعات سامنے آئیں کہ کم سن بلوچ بچیوں کی شادیاں ڈیتھ اسکواڈ سے زبردستی کی جاتی ہے

یہ ڈیتھ اسکواڈ کے اہلکار بلوچ خواتین پر ظلم کررہے ہیں تاکہ ان کے مردوں کو اس جنگ سے دور رکھا جائے بلوچستان میں سب سے پہلے حق گو صحافیو ں کو لاپتہ کیا گیا اور ان احتجاج کرنے والوں کو نشانہ بنا یا گیا جو فورسز کے ہاتھوں ظلم اور تشدد کے نشان بن گئے اسی طرح بلوچستان میں جنگ کے سبب خواتین کی تعلیم سمیت تمام حقوق پا مال ہیں جب گھر کے نوجوانوں کو لاپتہ کیا جاتا ہے تو خواتین گھروں کے نظام کو چلاتے ہیں یا کوئٹہ اور کراچی میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں شرکت کرسکیں بہت سی بلوچ خواتین آج بھی اپنے گھروں کے خرچے چلا رہے ہیں انہوں نے کہا کہ بلوچوں کو اتنا تنگ کیا جارہا ہے کہ وہ اس سرزمین کو چھوڑ کر کئی اور چلے جائیں ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ کا کہنا تھا

کہ دنیا بھر میں ایک کے دن لوگ خوشیاں مناتے ہیں لیکن بلوچ خواتین اس دن بھی اپنے پیاروں کے لئے احتجاج کررہے ہوتے ہیں بلوچستان کے 25شہروں میں خواتین احتجاج کرتے ہیں عید کے دن خواتین اپنے پیاروں کے تصاویر دیکھ کر اس کے بعد احتجاج کیلئے نکل جاتے ہیں انہوں نے کہا کہ ریاستی جبر دن بدن اضافہ ہورہا ہے اس پر ملکی پارلیمنٹ اور عدلیہ مکمل خاموش ہے گزشتہ دو دہائیوں سے بلوچستان کی سرزمین جو ملک بھر کو گیس کی فراہمی وہاں سے کی جاتی ہے 62بلین ڈالر کی سی پیک بلوچستان کی سرزمین پر بلوچ نوجوانوں کی لاشیں گرائی جارہی ہے بلوچ نوجوانوں کیلئے احتجاج کرنا ہم سب کا فرض ہے 2023بالاچ مولا بخش کو عدالت میں پیش کیا گیا اس کی والدین نے خوشیاں منائی وہ جانتے تھے کہ وہ بے گناہ ہیں اس کی والدہ نے خیرات بانٹی لیکن اسے بھی شہید کیا گیا عدلیہ کی خاموشی سوالیہ نشان ہے

بلوچوں کا مسئلہ حل ہونا چاہیے عدالتوں میں ہزاروں بلوچ لاپتہ نوجوانوں کے کیسز زیر سماعت ہیں ان کی پیشیاں نہیں ہوتی ہیں جو متاثرہ خاندان ہیں ان کے خلاف کئی ایف آئی آرز کی گئی ہیں اپنے پیاروں کے لئے احتجاج پر ان کو ذہنی تشدد کا نشانہ بنا یا جاتا ہے آج بھی بلوچستان میں نوجوانوں کو تشدد کر کے لاپتہ کیا جارہا ہے ہم ایک پر امن تحریک چلاتے ہیں

ہم انسانیت کے دعویداروں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ بلوچستان میں جاری آپریشن کا نوٹس لیں پنجاب اور سندھ میں جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں اس کی بھی ہم مذمت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ تمام انسانی حقوق کو ماننے والوں کو چاہیے کہ وہ بلوچستان کے لاپتہ افراد کیلئے آواز اٹھائیں 10جنوری 2024کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں کیس چلا جس میں اس وقت وہاں اٹارنی جنرل نے بیا ن دیا کہ آج کے بعد کوئی لاپتہ نہیں ہوگا اگر کسی کو مسنگ کیا گیا تو اس کی ذمہ داری اسٹیٹ کی ہوگی ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *