ملک میں معمولات زندگی بحال ہونا شروع ہوگئی ہے مگر کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے خدشات کے پیش نظر بس اورریلوے سروسز کی بحالی پر صوبائی حکومتوں میں شدید تحفظات پایا جاتا ہے اوروہ ایسی صورتحال میں ان کی بحالی کے حق میں نہیں ہیں۔ لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد اب تک ٹرانسپورٹ اور ریلوے سروس مکمل طور پر بند ہیں جبکہ ایمرجنسی اور ضرورت کے پیش نظر ائیرپورٹ کی سہولت فراہم کی جارہی ہے مگر معمول کے طور پر اس کی سروس معطل ہے۔ دوسری جانب سندھ اور بلوچستان نے وفاقی وزارت ریلوے کی جانب سے ٹرین سروس کھولنے کے فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیاہے۔وزیر ٹرانسپورٹ سندھ اویس قادر شاہ نے کہا ہے کہ اس فیصلے سے قبل سندھ کو اعتماد میں نہیں لیا گیا، معیاری ضابطہ کار (ایس او پیز) پر عمل نہیں ہوا تو شیخ رشید کو استعفیٰ دینا ہوگا۔
انہوں نے استفسار کیا کہ اگر ادارے کو خسارہ ہوتا ہے تو کیا ازالہ لوگوں کی جانوں سے کریں گے؟دوسری جانب وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے کہا ہے کہ ایس او پیز کے بغیر ٹرانسپورٹ کھولنے سے کورونا دیہاتوں تک پھیل سکتا ہے۔ انہوں نے عوام سے سفر نہ کرنے کی بھی اپیل کردی۔واضح رہے کہ وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے 20 مئی سے 30 مئی تک معیاری ضابطہ کار (ایس اوپیز) کے ساتھ ٹرینیں چلانے کی منظوری دے دی ہے۔شیخ رشید کا کہنا ہے کہ پشاور میں انتظامات دیکھوں گا اور پھر گرین لائن کوروانہ کروں گا،کسی ڈویژن میں ایس اوپیز کی خلاف ورزی ہوئی تو ڈویژن ہیڈ کیخلاف کارروائی ہوگی۔ان کا کہنا تھا کہ 31 مئی تک حالات ٹھیک رہے تو تمام ٹرینیں یکم جون سے کھول دیں گے، لوگ ضابطہ کار پرعمل کرتے ہیں۔
تو سب ٹھیک ہے، شہری کسی مسافر کو چھوڑنے یا لینے نہ آئیں۔بہرحال صوبائی حکومتوں کے تحفظات کی ایک بڑی وجہ ایس اوپیز کی خلاف ورزیاں ہیں کیونکہ حال ہی میں دیکھنے کو ملا ہے کہ تجارتی مراکز کھولنے کی اجازت دی گئی تو عوام اور تاجر برادری نے اس پر عمل نہیں کیا ہر جگہ ہجوم دکھائی دیئے جبکہ دکانداروں نے سینی ٹائزر سمیت دیگر ایسے انتظامات نہیں کئے جس سے کورونا وائرس سے بچاؤ ممکن ہوسکے کیونکہ اب بھی روزانہ کی بنیاد پر کورونا وائرس کے کیسز رپورٹ ہورہے ہیں اور مقامی سطح پر ہی کیسز سامنے آرہے ہیں۔ایسے میں ریلوے اور بس سروسز کی بحالی رسک ثابت ہوسکتا ہے کہ کس طرح سے طویل سفر کے دوران عوام احتیاطی تدابیر اپنائینگے اور ہر اسٹیشن پر عملہ تعینات ہوکر اس امر کو یقینی بنائے گی۔
المیہ یہ ہے کہ مارکیٹوں میں چیک اینڈ بیلنس دیکھنے کو نہیں مل رہالیکن تاجرپھر بھی سراپا احتجاج دکھائی دیتے ہیں کہ انہیں شاپنگ مالز کھولنے کی اجازت دی جائے جبکہ مارکیٹوں کوکھولنے کے بعد کسی قسم کے خاص انتظامات خود تاجر تنظیموں کی جانب سے دکھائی نہیں دیئے تو کس طرح سے بس اور ٹرین سروسز کے دوران ایس اوپیز پر عمل ممکن ہوسکے گا۔یقینا صوبائی حکومتوں کے خدشات کسی حد تک درست ہیں کیونکہ محکمہ ریلوے کی کوتاہی کے کارنامے ریکارڈ پر موجود ہیں کہ کس طرح کے سانحات رونما ہوچکے ہیں جس میں بڑی تعداد میں انسانی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔اب تو یہ قدرتی وباء ہے اس پر تو زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے لہٰذا اس فیصلے پر نظرثانی وفاقی وزیر ریلوے کو کرنی چاہئے کہ اگر کچھ خسارہ ہوتا ہے۔
تو اس کو پورا کرنے کیلئے وقت مل سکتا ہے مگر انسانی جانوں کے نقصان کا ازالہ نہیں،خدانخواستہ بڑے پیمانے پر لوگ متاثر ہوئے تو ایک نیا بحران جنم لے گا فی الحال کورونا وائرس دیگر ممالک کی نسبت پاکستان میں کم پھیلا ہے اور اس کے نقصانات کم ہوئے ہیں اس لئے کوشش کرنی چاہئے کہ وہ اقدامات اٹھائے جائیں جس سے مزید نقصانات سے بچاجاسکے بجائے یہ کہ وباء کے پھیلاؤ کا سبب بنا جائے۔