|

وقتِ اشاعت :   May 21 – 2020

معاشرے کی ترقی میں کلیدی کردار ہمیشہ تعلیم یافتہ افراد کا ہوتا ہے دنیا آج جس طرح سے ٹیکنالوجی کے ذریعے ترقی کے منازل طے کررہی ہے اس کی بڑی وجہ جدید علوم ہیں اوران ترقی یافتہ ممالک کی اولین ترجیح انسانی وسائل پر خطیر رقم خرچ کرنے کے ساتھ ساتھ ہونہار اورقابل لوگوں پروسائل اور توجہ دونوں ساتھ لگانا ہے تاکہ اپنے ملکی شعبوں میں مزید بہتری لاسکیں۔مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں انسانی وسائل پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی، تعلیمی اداروں میں معیاری تعلیم کا شدید فقدان ہے،بورڈنگ سسٹم بھی کمزور ہے۔اگر بات بلوچستان کی جائے تو اس غریب صوبے نے ہر شعبہ میں انتہائی قابل اور اعلیٰ پایہ کی شخصیات پیدا کی ہیں۔ سیاست، ادب، صحافت، وکلاء، ڈاکٹرز،اساتذہ، شعراء اور ادباء، سائنسی علوم سے لیکر فلاسفی تک پیدا کئے مگر ان کو نظرانداز کیا گیا۔

اگر کوئی ایماندارشخص کسی اہم سرکاری عہدے پر فائز رہا تو زیادہ عرصہ تک وہ اس عہدہ پر ٹک نہیں سکا کیونکہ انتہائی ایمانداری اور خلوص کے ساتھ وہ اپنے غریب صوبے کی خدمت کرتے ہیں مگر کرپٹ عناصر اپنے مفادات اور صوبے میں لوٹ مار اور کرپشن کو فروغ دینے کیلئے سازشیں رچاتے ہیں۔بلوچستان کی پسماندگی کی ایک بڑی وجہ بھی یہی ہے۔حالیہ پیش آنے والے واقعہ میں خاتون اے سی کا معاملہ ابھی زیر غور ہے، حقائق کو پرکھنے کے بعد ہی حتمی رائے دی جاسکتی ہے مگر اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بلوچستان کی سرحدوں سے بڑے پیمانے پر اسمگلنگ ہوتی ہے اور اسمیں بڑے مافیاز ملوث ہیں جس میں سیاستدانوں سے لیکر سرکاری آفیسران تک شامل ہیں، روزانہ کروڑوں روپے سے بھی زائد مالیت کے سامان غیر قانونی طریقے سے بلوچستان کی سرحدوں سے اندرون ملک اسمگل کئے جاتے ہیں۔

اگر کوئی آفیسرا یمانداری اور فرائض کے ساتھ اس میں رکاوٹ ڈالتا ہے تو اس کا فوری تبادلہ کردیا جاتا ہے اور اس کی جگہ فرمانبردار اور اپنے تابعدار آفیسران کوتعینات کیاجاتا ہے تاکہ ان کا کالادھندا چلتا رہے۔المیہ یہ ہے کہ صوبے کے ہمدرد اور ترقی کے دعویدار جماعتوں کی حکومت کے دوران بھی یہ سب کچھ ہوتا رہا اور انہوں نے مکمل خاموشی اختیار کیے رکھی جس کا نقصان بلوچستان کو ہوتاآرہاہے۔اگر بلوچستان کی سرحدوں کے ذریعے پڑوسی ممالک کے ساتھ قانونی طور پر تجارت کی جائے تو صوبے کی تقدیر بدل جائے گی۔ ہمارے یہاں صرف دعوے کئے جاتے ہیں کہ ہماری سرزمین اور وسائل کوصحیح معنوں میں بروئے کارلایاجائے تو صوبے کے محاصل اتنے بڑھ جائینگے کہ ہم اپنے اداروں کی ترقی کیلئے اپنے ہی بجٹ کے ذریعے رقم مختص کرسکیں گے۔

اور ساتھ ہی دیگر شعبوں کی ترقی اور سرمایہ کاری کیلئے بھی پیسے مختص کئے جاسکتے ہیں۔لیکن یہ محض دعوے ہی ثابت ہوتے ہیں،زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں،اگر نیک نیتی کے ساتھ بلوچستان میں حکومتی نظام اور انتظامی امور کو چلایاجائے تو اس میں کوئی دورائے نہیں کہ بلوچستان ملک کے دیگر صوبوں کی نسبت بہت آگے نکل جائے گا مگر یہ محض خواب ہی دکھائی دیتا ہے،جب تک گورننس کو ایمانداری کے ساتھ نہیں چلایاجائے گا،قابل آفیسران سے تو صوبہ محروم ہوگا ہی، دیگر ہونہار افراد بھی مایوسی کی وجہ سے ایمانداری کا راستہ نہیں اپنائینگے اور اس طرح کرپشن عروج پائے گا۔

اور بلوچستان کی قسمت میں صرف پسماندگی اور محرومیاں ہی آئینگی۔بہرحال وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کی جانب سے خاتون آفیسرسے متعلق نوٹس لے لیا گیا ہے جوکہ خوش آئند ہے، امید ہے کہ اس معاملہ کی شفاف تحقیقات کی جائے گی اور انصاف کیاجائے گا اور ہونہار اور قابل آفیسران کی حوصلہ افزائی کی جائے گی تاکہ وہ صوبہ میں بہترین گورننس کیلئے اپنا کردار ادا کرتے رہیں۔