|

وقتِ اشاعت :   May 22 – 2020

قلات: سابق وفاقی وزیر اور بلوچ رابطہ اتفاق تحریک برات کے سربراہ پرنس محی الدین بلوچ نے کہا ہے کہ ملک اپنے بدترین دور سے گزر رہا ہے خزانہ خالی ہے کرپشن کرنے والوں نے پچھلے تیس سال سے تیجوریوں کو بھر دیئے ہیں اس میں سرکاری ملازمین نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی پریشانی کی بات یہ ہیکہ اگر یہ کرپشن کا پیسہ ملک میں خرچ کیا جاتا تو ملک اور خاص کر غریبوں کو فائدہ پہنچتا مگر اس کرپشن کے پیسے کو بیرون ملک منتقل کیا گیا۔

اس سے جائیدادیں خریدی گئی اور عیاشیوں پر خرچ ہوا نیب کو جب بنا یا گیا تو بلندوبا نگ دعوے کیئے گئے اور بتایا گیا کہ یہ ادارہ کرپشن کو روکے گا مگر نیب نے کرپشن کو مزید فروغ دیا اور کرپشن کرنے والوں کو گارنٹی دی گئی خوب کھاؤ صرف ہمیں کچھ دو ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز شاہی دربار قلات بلوچ ہاؤس میں برات کے صوبائی صدر پرنس یحیٰ جان بلوچ سمیت اپنے خاندان کے ممبران ومختلف سیاسی و قوم پرست پارٹیوں کے کارکنوں ونواجوانوں اور برات کے کارکنان سے ملاقات کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کیا انہوں نے کہا کہ یہ ایسے ہے۔

جیسے ایک تھانیدار چور کو کہے کہ چوری کرو مگر تھانہ فنڈ میں کچھ جمع کرو انہوں نے کہا کہ ہماری نہ خارجہ پالیسی ہے اور نہ ہی اقتصادی پالیسی ہے یہ اس لیئے ہے کہ پتہ نہیں کہ لیڈر کون ہے پار لیمنٹ کا رول کیا ہے کون کیا کر رہا ہے سول اور عدلیہ والے گلہ کرتے ہیں پسے پردہ کوئی اور آرڈر دے رہا ہے پسے پردہ والے کہتے ہیں کہ ہم کوئی مداخلت نہیں کررہے ہیں اور ہم اپنے پیشہ وارانہ ٹریننگ میں لگے ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان ملک کا سب سے اہم خطہ ہے وسائل کے لحاز سے جغرافیائی اور دفاعی لحاز سے اہمیت کا حامل ہیں مگر یہاں تعلیم صحت روزگار اور دیگر بنیادی سہولتیں نا پید ہیں جبکہ این اف سی ایوارڈ میں بھی ایک غیر بلوچستانی کو لگایا گیا ہے جو بلوچستان کے متعلق جانتا کچھ بھی نہیں بلوچستان کے کوئی بلوچ پٹھان پنجابی ہزارہ یاکوئی سیٹلر کو بھی لگایا جا سکتا انہوں نے کہا کہ ایک پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی جس کا سربراہ ایک بیورو کریٹ کو بنا یا گیا۔

پاکستان کی دوسرے صوبوں کے لوگوں کو ان بلوچستان کے حالات سے بہت پریشانی ہو رہی ہیں ہمارے ہمسائے جدی اسلحہ سے لیس ہو رہے ہیں اور ہمارے پاس پیسہ نہیں کہ ہم جدید اسلحہ خرید سکیں میں نے پہلے بھی تجویز دی ہے کہ اس پریشانی کی حالات میں افواج پاکستان پاکستان کے استحکام کے لیئے مرکزی حکومت اور پارلیمنٹ کے زریعے سے مخصوص اختیارات حاصل کرکے بلوچستان کے لوگوں کے ساتھ ایک باعزت سمجھوتہ کرے جیسے کہ ماضی میں ہوا ہے بلوچستان کے ساتھ سمجھوتہ میں ضروری ہے کہ ماضی کی غلط پالیسیوں کا اعتراف کیا جائے۔

اور بلوچستان کے مخصوص پوزیشن کو مانا جائے اگر اللہ پاک اور اسکے رسول ﷺ کو منظور ہوا تو یہاں ایک باعزت امن قائم ہو سکتی ہے بلوچوں کو ان کے وسائل ملنے سے وہ حقیقت میں ترقی کر سکیں گے ایسے نہیں کہ سیندک میں ہوا کہ کھربوں ڈالر کمائی گئی اور بلوچوں کو کچھ بھی نہیں ملا بلوچ ایک بہادر اور عزت پسند قوم ہے اسے دلاسا اور تسلی کی ضرورت ہے ڈنڈا اور غنڈہ گردی والی پالیسی جو بیس سال سے چل رہی ہے وہ فیل ہو چکی ہیں حاکم اس نقطے کو سمجھے ورنہ بلوچ ناا میدی میں کہیں اور نظریں نہ لگائیں