گزشتہ روز کراچی کے رہائشی علاقے ماڈل کالونی میں پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائن کے طیارے کوحادثہ پیش آیا،حادثے میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق 97 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں جن میں سے 16 میتوں کی شناخت ہوچکی ہے،جائے حادثہ اور طیارے کے ملبے سے 97 لاشیں نکالی گئی ہیں جن میں سے 16کی شناخت ہوگئی ہے، مسافر طیارہ کراچی میں لینڈنگ سے کچھ دیر قبل رہائشی علاقے ماڈل کالونی میں گر کر تباہ ہو گیا تھا جس میں 92 مسافر اور عملے کے 8 ارکان سوار تھے۔ طیارہ حادثے میں دو افراد بشمول بینک آف پنجاب کے صدر ظفر مسعود معجزانہ طور پر بچ گئے۔
محکمہ صحت سندھ کے مطابق 66 لاشوں کو جناح اسپتال منتقل کیا گیا جبکہ 31 لاشوں کو سول اسپتال کراچی منتقل کیا گیاجہاں میتوں کی شناخت کیلئے ڈی این اے نمونے اکٹھے کیے جارہے ہیں۔طیارہ حادثے میں جاں بحق ہونے والے افراد کی شناخت کے لیے نادرا کی خصوصی ٹیم کراچی پہنچ گئی ہے۔ طیارہ حادثے میں جاں بحق ہونے والے زیادہ تر افراد کی نعشوں کی شناخت میں دشواری کا سامنا ہے۔اسپتال حکام کاکہنا ہے کہ جائے حادثہ پہ لگنے والی آگ اور وہاں موجود تپش کی وجہ سے میتوں کی شناخت میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔
نادرا کی خصوصی ٹیم جاں بحق افراد کے انگوٹھوں کی مدد سے شناخت کو ممکن بنانے کے عمل میں مدد کررہی ہے۔ نادرا ترجمان کے مطابق جاں بحق ہونے والے تین افراد کے انگوٹھوں کے نشانات لیے گئے تو ان میں سے دو کی شناخت ہو گئی ہے۔اس سے قبل پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل نے کہا تھا کہ طیارے کے جائے حادثہ سے تمام لاشیں اٹھا لی گئی ہیں۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل کے مطابق طیارہ حادثے میں 2 مسافر محفوظ رہے۔ حادثہ پر آرمی، رینجرز اور دیگر اداروں کا ریسکیو آپریشن جاری ہے جبکہ متاثرہ مکینوں کو متبادل جگہ منتقل کر دیا گیا ہے۔
طیارہ حادثے میں 25 گھر متاثر ہوئے ہیں جنہیں مکمل طور پر کلیئر کر دیا گیا ہے۔بہرحال حادثہ کیوں اور کیسے پیش آیا وجوہات کیا تھیں اس کی مکمل شفاف تحقیقات ہونی چاہئیں کیونکہ اس سے قبل بھی ائیربس حادثات رونما ہوئے ہیں جس کے بعد کمیٹیاں تشکیل دی گئیں مگر ان کی رپورٹس بدقسمتی سے سامنے نہیں آئیں اور یہی وجہ ہے کہ حادثات کچھ عرصہ کے بعد دوبارہ رونما ہوجاتے ہیں اور انسانی جانیں ضایع ہوجاتی ہیں۔
اس لئے حکومت وقت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس حادثے کی مکمل انکوائری کرائے اور حقائق کو سامنے لائے تاکہ دوبارہ اس طرح کے دلخراش واقعات کا سدباب کیاجاسکے۔
مسافر اپنے پیاروں کے ساتھ عید منانے کیلئے کراچی آرہے تھے کہ وہ ان خوشی بھرے لمحات کو اپنے خاندان اور پیاروں کے ساتھ گزار سکیں مگر چند ہی لمحوں میں خوشی کے خواب خون کے آنسوؤں میں تبدیل ہوگئے جنہیں لفظوں میں بیان نہیں کیاجاسکتا کہ اس حادثہ نے کتنے خاندان اجاڑ دیئے جہاں خوشی کی تہوار ایک ساتھ منانے کی تیاریاں کی جارہی تھیں اب سب کچھ سوگ میں بدل چکا ہے اور اس درد کو وہی خاندان محسوس کرسکتے ہیں جن سے ان کے پیارے جدا ہوگئے ہیں۔بس دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ اللہ پاک سوگوار خاندانوں کو صبر دے۔
البتہ اس حادثہ کے محرکات جاننے کیلئے غیر جانبدارانہ تحقیقات ضروری ہیں کہ ہمارے یہاں کتنے قابل لوگ اتنے اہم اداروں کے عہدوں پر فائز ہوکر اپنی ذمہ داریاں نبھارہے ہیں۔بدقسمتی سے ہمارے قومی اداروں خاص کر ریلوے اور ائیربس سروس کی کارکردگی اتنی شاندار نہیں رہی جس کی مثال دی جاسکے، خسارہ تک تو عوام برداشت کرپاتی ہے مگر اپنے پیاروں کی جدائی اداروں کی لاپرواہی کی وجہ سے کسی صورت برداشت نہیں کرسکتی۔
اس لئے کسی دوسرے سانحہ کے رونما ہونے سے قبل پی آئی اے کے جہازوں، پرزوں خاص کر اہم عہدوں پر فائز آفیسران اور عملہ کی قابلیت کو جانچنے کیلئے بھی تحقیقات کی جائے کہ آیا وہ میرٹ کی بنیاد پر آئے ہیں یا سفارش کی بنیاد پران کی تعیناتی کی گئی ہے۔خدارا اس ملک کے عوام کے ساتھ ناانصافیوں کا سلسلہ ختم کیاجائے، ہر سطح پر عوام نے ہی غم اور سوگ کے بوجھ اٹھائے ہیں جو اب تھک چکے ہیں۔ بہرحال عید کی اس خوشی کے موقع پر پوری قوم سوگوار خاندانوں کے ساتھ ہے اور دعا ہے کہ اللہ پاک سوگواران کو اپنے پیاروں کی جدائی پر صبرجمیل عطا فرمائے۔