|

وقتِ اشاعت :   May 27 – 2020

افغان حکومت نے مزید 900 طالبان قیدی رہا کرنے کا اعلان کیا ہے۔ عید کے موقعے پر عسکریت پسندوں کی طرف سے جنگ بندی کے تیسرے اور آخری روز یہ اعلان سامنے آیا۔

چوبیس مئی سے طالبان نے فائر بندی کا اعلان کیا تھا اور افغان حکام کے مطابق اس پر مجموعی طور سے عمل کیا گیا۔

طالبان نے جب جنگ بندی کا اعلان کیا تھا تو اس وقت حکومت نے دو ہزار طالبان قیدی رہا کرنے کا عندیہ دیا تھا۔

قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جاوید فیصل نے آج چھبیس مئی کو کہا کہ حکومت نے نو سو قیدیوں کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بالکل صحیح تعداد قانونی عمل مکمل ہونے کے بعد ہی معلوم ہو سکے گی۔ پچیس مئی کو حکام نے ایک سو قیدیوں کو رہا کیا تھا۔ ان قیدیوں کو بگرام کے جیل خانے سے رہا کیا گیا تھا۔

جاوید فیصل نے اپنے ٹویٹ پیغام میں کہا تھا کہ انہیں امن کی کوششوں کو بڑھاوا دینے کے سلسلے میں خیر سگالی کے جذبے کے تحت رہا کیا گیا ہے، تاکہ جنگ بندی میں اضافہ ہو سکے اور براہ راست مذاکرات فوری طور پر شروع ہو سکیں۔

فروری میں امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدے میں امریکہ کے زیر قیادت اتحادی افواج کے انخلا کے ٹائم ٹیبل اور طالبان کی جانب سے امن و امان قائم رکھنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔ اسی معاہدے میں پانچ ہزار طالبان قیدیوں کی رہائی اور طالبان کی طرف سے ایک ہزار افغان سرکاری اہل کاروں کی رہائی بھی شامل تھی۔

صدر غنی نے یہ بھی کہا تھا کہ ان کی حکومت طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے لیے تیار ہے، تاکہ دو عشروں پر محیط اس جنگ کو ختم کیا جا سکے۔

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اس عارضی جنگ بندی کا خیر مقدم کیا تھا اور امید ظاہر کی تھی کہ آزاد کیے گئے جنگجو دوبارہ بر سر پیکار نہیں ہوں گے۔

افغانستان کے انسانی حقوق کے کمیشن نے حکومت کو خبردار کیا تھا کہ رہا شدہ طالبان جنگی جرائم میں دوبارہ ملوث ہو سکتے ہیں۔

افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی سفیر زلمے خلیل زاد نے جنگ بندی کو ایک ایسا موقع قرار دیا جس کے ذریعے امن عمل کو شروع کیا جا سکتا ہے۔

طالبان اور افغان حکومت کے درمیان براہ راست مذاکرات کے امکانات اس خبر سے بھی روشن ہوئے کہ سترہ مئی کو افغان صدر غنی اور ان کے مد مقابل عبداللہ عبداللہ کے درمیان شراکت اقتدار کا سمجھوتا طے پا گیا ہے۔ کئی ماہ سے افغانستان کے صدارتی انتخابات کے نتائج پر دونوں بڑے لیڈروں کے درمیان تنازعہ چل رہا تھا اور اسی کی وجہ سے یہ امن مذاکرات بھی التوا کا شکار تھے۔

اس وقت افغانستان میں تقریباً بارہ ہزار فوجی تعینات ہیں اور امریکہ نے وعدہ کیا کہ افغان فوج کے لیے وہ چار ارب ڈالر سالانہ ادا کرے گا۔

طالبان کا ملک کے تقریباً نصف پر کنٹرول ہے اور امریکہ کے ساتھ سمجھوتے کے بعد بھی ان کی دہشت گرد کارروائیاں جاری رہیں۔