|

وقتِ اشاعت :   May 28 – 2020

کراچی میں پی آئی اے کے تباہ ہونے والے مسافر طیارے کی تحقیقات کے لیے فرانس سے آئے ائیر بس ماہرین کی اجازت کے بعد طیارے کے ملبے کو ہٹانے کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔22 مئی کو لاہور سے کراچی آنے والا پی آئی اے کا بدقسمت طیارہ لینڈنگ سے چند سیکنڈ قبل گر کر تباہ ہو گیا تھا جس میں عملے کے افراد سمیت 97 مسافر جاں بحق ہوئے تھے۔حکومت پاکستان کی جانب سے طیارے کی تحقیقات کے لیے مختلف اداروں کے ماہرین پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو مختلف زاویوں سے طیارہ حادثے کی تحقیقات کر رہی ہے جبکہ ہوائی جہازوں کے انجن بنانے والی بین الاقوامی کمپنی ائیر نے بھی ماہرین کی ایک ٹیم تحقیقات کے لیے پاکستان بھیجی تھی۔ائیر بس کے ماہرین کی ٹیم 25 مئی کو پاکستان پہنچی تھی اور گزشتہ روز ٹیم نے جائے۔

حادثہ اور ائیرپورٹ پر کنٹرول ٹاور کا معائنہ کر کے ضروری شواہد اکٹھے کر لیے۔اطلاعات کے مطابق ائیر بس کے ماہرین کی اجازت سے تباہ ہونے والے پی آئی اے طیارے کے ملبے کی منتقلی کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ملبہ ہٹانے کے لیے پاک فضائیہ، سول ایوی ایشن اور پی آئی اے انجینئرنگ، ٹیکنیکل گراؤنڈ سپورٹ اسٹاف موجود ہے۔ طیارے کے کیبن، ٹیل اور دیگر حصوں کو منتقل کیا جا رہا ہے جبکہ طیارے کے انجن اور لینڈنگ گیئرز کی منتقلی چند روز بعد ہوگی۔اطلاعات کے مطابق طیارے کے اہم آلات کی جائے حادثے سے منتقلی تحقیقاتی ٹیموں کے کام کی وجہ سے روکی گئی تھی۔طیارہ حادثے میں ائیربس ماہرین نے پاکستانی تحقیقاتی ٹیم پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ائیربس ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان کی طیارہ حادثے کی تفتیشی ٹیم قواعد اور پیشہ ورانہ معیار کے مطابق کام کر رہی ہے۔

فرانسیسی ماہرین کا کہنا ہے کہ اے اے آئی بی اور ادارے کی قیادت کے شکرگزار ہیں۔ دوسری جانب پاکستان ائیر لائن پائلٹس ایسوسی ایشن (پالپا) نے الزام عائد کیا ہے کہ طیارہ حادثے کی تحقیقات کو غلط رخ دیکر اصل کرداروں کو بچانیکی کوشش ہو رہی ہے۔ترجمان پاکستان ائیر لائن پائلٹس ایسوسی ایشن کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ انجن کے رن وے پر لگنے کی اطلاع پائلٹ کو نہ دیا جانا سوالیہ نشان ہے جبکہ ایمرجنسی لینڈنگ کیلئے لمبا روٹ دینا بھی قابل تفتیش ہے۔پالپا ترجمان نے کہا کہ پہلی اور دوسری لینڈنگ کی تفصیل کو ملا کر غلط رنگ دیا جا رہا ہے۔ بہرحال شہید پائلٹ کے والد نے چند روز قبل گورنر پنجاب کی موجودگی کے دوران شدید غم وغصہ کا بھی اظہار کیا تھا جس پر انہوں نے تحقیقات پر نہ صرف اپنے تحفظات رکھے تھے بلکہ اپنے شہید بیٹے کے حوالے سے اٹھائے گئے۔


سوالات پر بھی برہمی کا اظہار کیا تھا مگر یہ صرف پائلٹ کے والد کامسئلہ نہیں بلکہ جتنے افراد اس طیارے میں سوار تھے ان کے خاندان انصاف کے منتظر ہیں لہذا شفاف تحقیقات ہر صورت ہونی چاہئے۔ تحقیقاتی ٹیم پر پہلے سے سوالات اور شک وشہبات کا پیدا ہونا نیک شگون نہیں۔ ویسے بھی ہمارے ہاں پہلے بھی اس طرح کے حادثات رونما ہوتے رہے ہیں مگر ان کی رپورٹ کبھی بھی سامنے نہیں آئی اس لئے اعتماد کو بحال کرنے اور آئندہ ہونے والے سانحات سے بچنے کیلئے غیر جانبدارانہ اور منصفانہ تحقیقات لازمی ہیں۔اورجس کی بھی لاپرواہی اور غفلت کی وجہ سے یہ حادثہ پیش آیا ہے۔

ان کرداروں کو سامنے لانا چاہئے اور اس کے بعد ان کے خلاف کارروائی کرکے یہ تسلی دی جائے کہ قانون سب کیلئے یکساں ہے۔ امید ہے کہ موجودہ صورتحال میں حادثہ کے بعد جو ابہام پیدا ہورہے ہیں انہیں دور کرنے کی پوری کوشش کی جائے گی۔ دنیا بھر میں طیاروں کے حادثے رونما ہوتے ہیں انتہائی ماہر پائلٹ سے بھی غلطیاں ہوجاتی ہیں اور بسااوقات تکنیکی خرابی بھی حادثات کا سبب بنتے ہیں مگر اصل مسئلہ حادثات کے اسباب کو جاننا ہے تاکہ آئندہ ان کا تدارک کیاجاسکے۔