|

وقتِ اشاعت :   May 30 – 2020

پاکستان میں خواہ کوئی بھی جماعت جب بھی برسراقتدار آئی تواس نے سب سے پہلے عوام کو یہ خوشخبری سنائی کہ ملک میں معاشی انقلاب برپا کیا جائے گا،ماضی میں اپنی معیشت پر انحصار کرنے کی بجائے قرضہ لیا گیا لیکن ہماری پالیسی اپنی صنعتوں کو نہ صرف فروغ دینا ہے بلکہ اپنی پیداوار کو بڑھاتے ہوئے دنیا بھر کی مارکیٹوں تک پہنچانا ہے۔ عالمی مارکیٹ تک پاکستانی مصنوعات کی رسائی کو یقینی بناتے ہوئے ملکی معیشت کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچایا جائے گا جس سے روزگار کے بڑے پیمانے پر مواقع پیدا ہونگے اور ہماری صنعتیں ترقی کرینگی۔ بدقسمتی سے یہ محض دعوے ہی ثابت ہوئے حالانکہ دیکھاجائے پاکستان ایشیاء میں وہ واحد ملک ہے جو اپنے محل وقوع کے لحاظ سے انتہائی منفرد حیثیت رکھتا ہے خاص کر گوادر کی ساحلی پٹی سے ہی اربوں ڈالر کمائے جاسکتے ہیں۔

بدقسمتی سے اس اہم سمندری تجارت کو اتنی اہمیت نہیں دی گئی جتنی کہ ایران نے چاہ بہار کو دی اور آج ایران صرف اسی سمندری راہداری کے ذریعے سالانہ اربوں روپے کمارہا ہے۔ سینٹرل ایشیاء کے ممالک اس کی ایک سادہ سی مثال ہیں جوکہ ایرانی سمندری راستہ سے بہ نسبت گوادر سے کافی فاصلہ پر واقع ہیں جبکہ گوادر ان سے انتہائی قریب پڑتا ہے، اس کے علاوہ گوادر کے ہی راستے سے مغربی ممالک بھی قریب پڑتے ہیں مگر ہمارے حکمرانوں نے بناکسی وجہ کے اس اہم تجارتی گیٹ وے کو مکمل طور پر نظرانداز کررکھا ہے جبکہ بلوچستان کے ساتھ ایران اور افغانستان کی سرحدیں بھی ملتی ہیں جن کے ساتھ تجارت کو وسعت دیا جاسکتا ہے۔

ماہرین اور بعض سیاستدان بھی ہر دور میں اس بات پر زور دیتے آئے ہیں مگر ن لیگ کے دور میں زیادہ سست روی دکھائی گئی جبکہ پیپلزپارٹی نے ایک بہت بڑا کارنامہ یہ کیا کہ ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کا معاہدہ کیا اور یہ ایک بہترین ابتداء تھی اگر اسے آگے بڑھایا جاتا تو آج دونوں ممالک کے درمیان بجلی، گیس سمیت دیگر منصوبوں پر بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری ہوتی جس سے پاکستان قرض لینے کے مرض سے جان چھڑا سکتا تھا مگر امریکی دباؤ ہر وقت ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات کے حوالے سے پاکستان پر رہا ہے۔ جب تجارتی تعلقات نہیں ہونگے تو پڑوسی ممالک کے ساتھ قربت نہیں بڑھے گی۔

مفادات ہی دونوں کی اقتصادی قوت کا واحد ذریعہ بن سکتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ آج بھی ایران اور افغانستان سے تجارت بڑے پیمانے پر غیر قانونی طریقے سے ہورہی ہے جس کا نقصان براہ راست ملکی خزانہ کو ہورہا ہے جبکہ اسمگلر طبقہ غیر قانونی طریقے سے اربوں روپے کمارہا ہے۔لہٰذا اس جانب ضرور توجہ دینی چاہئے خاص کر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو یہ انقلابی قدم بغیر کسی دباؤ کے اٹھانا چاہئے اور اپنے ملکی مفادات کو اولین ترجیح دیتے ہوئے کسی دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنی معیشت کو مضبوط بنانے کیلئے پالیسی بنانی چاہئے۔گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے تجارت عبدالرزاق داؤد نے بتایا کہ سمندری راستے سے پاکستان کیساتھ تجارت کے نئے دور کا آغاز ہوگیا ہے۔

اور ا س سلسلے میں افغانستان کیلئے16ہزارمیٹرک ٹن یوریا کھاد لے کربحری جہاز گوادر پہنچا ہے۔مشیرتجارت نے بتایا کہ گوادرپورٹ سے افغانستان کوٹرانزٹ ٹریڈ کی شروعات ہوگئی ہیں اور بیرون ملک سے افغانستان بھیجی جانے والی کھاد کو پاکستان میں پیک کیا جائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ پہلی بار کھاد کو مقامی سطح پر بیگ میں پیک کیا جائے گا اور بیرونی پورٹ سے پیک ہو کر نہیں آئے گی۔ عبد الرزاق داؤد کا کہنا تھا کہ گوادرسے کھاد پیک کرکے ٹرکوں کے ذریعے افغانستان بھیجی جائے گی۔ کھاد اتارنے، پیکنگ اور ٹرکوں پرلوڈنگ سے مقامی افراد کوروزگارملے گا۔ صرف مقامی افراد کوروزگاردینے سے متعلق ہدایات جاری کردی گئی ہیں۔واضح رہے کہ پاکستان کی زیادہ تر تجارت سمندر کے راستے ہوتی ہے۔

اور بہت سے شعبے اس سے جڑے ہوئے ہیں جن میں بندرگاہیں، ساحلی سیاحت، فشنگ، تیل و گیس کے ذخائر، شپنگ، شپ بلڈنگ اور شپ بریکنگ وغیرہ شامل ہیں۔ پاکستان کے سمندری علاقے کا دو لاکھ 90 ہزار کلومیٹر رقبہ مخصوص تجارتی خطے(Zone Economic Exclusive) میں شامل ہے۔بہرحال ہم اب بھی سمندری حدود کو اس طرح استعمال نہیں کررہے جس طرح کرنا چاہئے۔ حکمرانوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ بری معیشت اور ابتر حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس جانب توجہ دیں تاکہ پاکستانی معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی ہوسکے اور اس کیلئے پڑوسی ممالک کے ساتھ سب سے پہلے تجارتی سطح پر تعلقات کو وسعت دینا ہوگا۔ قوی امکان ہے کہ اس اقدام سے آئندہ چند سالوں کے دوران پاکستان معاشی حوالے سے ایشیاء ٹائیگر ضرور بنے گا۔