|

وقتِ اشاعت :   June 3 – 2020

ڈنک سانحہ حادثاتی طور پر رونما نہیں ہوا اور نہ ہی اسے ایک عام سی ڈکیتی سے نتھی کیاجاسکتا ہے۔ بدقسمتی سے بلوچستان میں عرصہ دراز سے ایسے دلخراش واقعات رونماہورہے ہیں جو کہ بسااوقات رپورٹ ہی نہیں ہوتے جس طرح پنجاب اور کے پی کے میں معصوم بچیوں کے ساتھ زیادتی، ساہیوال سانحہ، ایسے انگنت واقعات کو زیادہ میڈیا پر کوریج ملتی ہے بلکہ باقاعدہ میڈیا کے ذریعے اس حوالے سے مہم چلائی جاتی ہے تاکہ ملزمان کو عبرت کا نشان بنایاجاسکے مگر بلوچستان میں ہونے والے واقعات پر انتہائی محتاط رویہ اپنایا جاتا ہے، اس کے مختلف پہلوؤں پر غور کیاجاتا ہے مطلب اسے اپنے لئے رسک سمجھ کر رپورٹ کرنے سے گریز کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اس کی ذمہ دار میڈیا سے زیادہ بلوچستان کی سیاسی خاص کر قوم پرست جماعتیں ہیں جب بھی کوئی معاشرہ بیگانگی اور انتشار کی طرف بڑھنے لگتا ہے تو اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ سیاسی جماعتیں کمزور نہیں بلکہ اپنے مفادات کے تحفظ اور حکمرانی کے تخت پر بیٹھنے کیلئے سیاست کررہی ہیں۔

بلوچستان کی سیاست کو ایک ایسی نہج پر پہنچادیا گیا ہے جہاں پر سیاسی جماعتوں نے نظریاتی ورکرز کی بجائے کریمنلزکو اپنے فیصلہ ساز کمیٹیوں میں اہم عہدوں پر فائز کیا ہے تاکہ ان کے رعب اوردہشت کے ذریعے عام لوگوں کے اندر خوف پیدا کرتے ہوئے اپنی جماعت کی جیت کو یقینی بنایا جائے اور یہی آج کل بلوچستان کی سیاست میں کامیابی کی کنجی ہے۔ ڈنک سانحہ اس کی ایک جھلک ہے نہ جانے ایسے کتنے واقعات روزانہ رونما ہوتے ہیں جومیڈیا پر رپورٹ ہی نہیں ہوتے مگر ڈنک واقعہ کا سامنے آنا سوشل میڈیا کی مرہون منت ہے وگرنہ مقامی صحافی بھی ایسے واقعات سے آنکھیں چرُاتے ہیں جو ان کی مجبوری ہے کیونکہ اس سے قبل بلوچستان میں پچاس کے قریب صحافیوں کی شہادت اسی طرح کے واقعات کو رپورٹ کرنے کی وجہ سے ہی پیش آئی ہیں اس لئے بیشتر صحافی قلم کی حرمت سے زیادہ اب سیاسی جماعتوں کے ناکام کارناموں کو شاندار طریقے سے پیش کرتے ہوئے نہ صرف اپنی زندگی بچاتے ہیں۔

بلکہ اس سے انہیں اس پردہ داری کے عوض معاوضہ بھی دیا جاتا ہے جس سے کسی طور بھی انکار نہیں کیاجاسکتا۔ بہرحال بلوچستان میں سماجی بگاڑ کی سب سے بڑی ذمہ دار سیاسی جماعتیں ہیں جنہوں نے اپنے لوگوں کو جرائم پیشہ افراد کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے اور انہیں مکمل چھوٹ دے رکھی ہے کہ جب چاہیں اور جس طرح چاہیں چادر وچار دیواری کے تقدس کو پامال کریں۔ بدقسمتی سے تمام سیاسی جماعتیں چیخ وپکار کررہی ہیں اور جسٹس فار برمش کے نام سے مہم چلارہی ہیں مگر حقیقی معنوں میں اس سانحہ نے سیاسی جماعتوں کے چہروں کو بے نقاب کیا ہے کہ آج بلوچستان کا معاشرہ کس حد تک تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے کہ کوئی بھی معمولی غنڈہ گھر میں داخل ہوکر بلوچ روایات کو پامال کرتے ہوئے۔

ایک بچی کے سامنے اس کی ماں کو قتل کرتا ہے اور اس واقعہ میں بچی بھی زخمی ہوجاتی ہے، اتنی دیدہ دلیری سے کس طرح ایسے افراد مسلح ہوکر گھروں میں داخل ہوکر کسی کی بھی عزت کو پامال کرنے کی جرات کرسکتے ہیں، یقینا ان کے پیچھے سیاسی قوتیں ہیں مگر یاد رہے کہ جس طرح کی سیاسی گندگی کا کھیل کھیلاجارہا ہے اس سے وہ سیاسی لوگ بھی نہیں بچ سکیں گے جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کیلئے انہی غنڈوں کو مضبوط کرکے آگے مزید کامیابیاں سمیٹیں گی۔ کیونکہ مونسٹر جیسے جیسے بڑھتا جاتا ہے اس کی خواہشات بھی بڑھتے جاتے ہیں اورآخر میں وہ اپنے آقا کو بھی نگل جاتا ہے۔خدارا بلوچستان کی بہترین روایات کو بہیمانہ سیاست کی بھینٹ نہ چڑھایاجائے جس سے معاشرہ مزیدانتشار کی طرف جائے۔