کوئٹہ: وزیراعلی بلوچستان جام کمال خان کا سالانہ پلاننگ کوآرڈینیشن کمیٹی اجلاس سے واک آؤٹ کرنا کوئی ہنگامی فیصلہ نہیں تھا ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت پلاننگ کمیشن اور اتحادی جماعت پاکستان تحریک انصاف کیساتھ ورکنگ ریلیشن بلوچستان عوامی پارٹی کے اندر گزشتہ کچھ عرصے سے زیر غور تھا اسلئے وفاقی حکومت اور بیوروکریسی کے رویئے کیساتھ سیاسی ورکنگ ریلیشن شپ کے معاملے مزید فری ہینڈ نہ دینے کا فیصلہ چند روز قبل کرلیا گیا تھا جسکے بعد وزیر اعلی بلوچستان جام کمال جو کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے سربراہ بھی ہیں۔
انہوں نے اپنی جماعت ایک اعلی سطح کی کمیٹی پاکستان تحریک انصاف سے ملاقات اور درپیش مسائل کے حل کیلئے تشکیل دیدی تھی اور اس کمیٹی کو صورتحال پر بریف بھی کردیا گیا تھا اور جلد اس سلسلے میں پاکستان تحریک انصاف کیساتھ ورکنگ ریلیشن شپ میں جو مسائل درپیش آرہے تھے انہیں اٹھانے کا فیصلہ کرلیا گیا تھا آج کے اجلاس کے واک آؤٹ سے قبل وزیر اعلی بلوچستان جام کمال خان صوبے کی بیوروکریسی اور اپنی صوبائی سیاسی ٹیم کیساتھ بیٹھ کر معاملات کو حتمی شکل دیدی تھی۔
اسہی سلسلے میں اسلام آباد میں موجود بلوچستان عوامی پارٹی کے اراکین قومی اسمبلی و سینیٹ کو بھی آج ایک اجلاس بلا کر اعتماد میں لے لیا تھا جسکے بعد وزیراعلی بلوچستان جام کمال خان نے وفاقی حکومت کو پہلا سخت پیغام دیا ہے کہ کیونکہ وزیر اعلی بلوچستان جام کمال خان نے گزشتہ دو سال کے دوران مختلف مواقع پر اندرون خانہ وفاقی حکومت اور اتحادی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو صورتحال سے باخبر رکھتے ہوئے بلوچستان کے معاملات پر آگہی دی۔
لیکن بلوچستان عوامی پارٹی کے حلقوں کا وزیراعلی بلوچستان جام کمال خان پر بحیثیت پارٹی صدر یہ دباؤ بڑھ رہا تھا کہ ہمیں بھی سیاسی طور پر وہی اننگز کھیلنی ہوگی جو حکومت میں شامل دیگر اتحادی جماعتیں کھیل رہی ہیں لیکن اب بھی وزیراعلی بلوچستان جام کمال خان چاہتے ہیں کہ وفاقی حکومت اور اتحادی جماعت معاملات کا نوٹس لے اگر انکے اس احتجاج کو اہمیت نہیں دی گئی تو بلوچستان کے وزیر خزانہ میر ظہور بلیدی نے عندیہ دیا ہے کہ وہ بلوچستان کی اپوزیشن کو اس معاملے پر اعتماد میں لینگے اور ایک مشترکہ موقف اختیار کیا جائیگا۔