قومی احتساب بیورو کے ایگزیکٹو بورڈ نے سابق وفاقی وزیر عامر محمود کیانی کے خلاف انکوائری اور وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کیخلاف شکایات کی جانچ پڑتال کی منظوری دے دی۔چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کی زیر صدارت نیب ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس ہوا جس میں 3 انکوائریوں اور شکایات کی جانچ پڑتال کی منظوری دی گئی۔بورڈ نے سابق وفاقی وزیرعامر محمود کیانی کے خلاف انکوائری کی منظوری دی جبکہ سول ایوی ایشن اور سی ڈی اے کے افسران و اہلکاروں کے خلاف بھی انکوائریز کی منظوری دی گئی۔
بورڈ نے وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کے خلاف بھی شکایت کی جانچ پڑتال کی منظوری دی۔نیب اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ایگزیکٹو بورڈ اجلاس کی تفصیلات فراہم کرنے کا مقصد کسی کی دل آزاری نہیں بلکہ تمام انکوائریاں مبینہ الزامات کی بنیاد پر شروع کی گئی ہیں۔ واضح رہے کہ عامر محمود کیانی اگست 2018 سے اپریل 2019 تک وفاقی وزیر صحت کے عہدے پر فائز رہے، انہیں وزیر اعظم عمران خان نے 18 اپریل 2019 کوہٹا دیا تھا۔ سابق وفاقی وزیر کے خلاف ادویات کی قیمتوں میں غیرقانونی اضافے کے الزامات ہیں۔
دوسری جانب گزشتہ دنوں وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے ینگ فارمسٹ ایسوسی ایشن کی شکایت پر کارروائی شروع کی ہے جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ ڈاکٹر ظفرمرزا نے ڈریپ کے ڈپٹی ڈائریکٹر غضنفر علی کی ملی بھگت سے ماسک اسمگل کرائے ہیں۔نیب ادارے کا مقصد ہی غیر سیاسی اورغیرجانبدار ہوکر قومی ادارہ کے طور پر اپنے فرائض سرانجام دینا ہے ناکہ کسی کے بھی دور حکومت میں اس کے ایجنڈے کو آگے بڑھائے۔چونکہ گزشتہ چند سالوں کے دوران جس طرح سے نیب نے کارروائیوں میں پھرتی دکھائی تھی تو بہت سے سوالات اٹھائے گئے کہ سیاسی انتقامی کارروائیاں کی جارہی ہیں کیونکہ یہ عمل ماضی میں بھی دہرایا گیا ہے کہ مخالفین کو زیر کرنے اور اپوزیشن جماعتوں کے لیڈران کو کرپشن کے الزامات کے نتیجے میں جیل بھیجا گیا۔
اور بعدمیں کچھ ثابت نہ ہوسکا اور اس طرح وہ رہاہوئے مگر شفاف احتساب کسی بھی دور میں نہیں ہوا جس کا اندازہ ملک میں بڑھتے کرپشن سے لگایا جاسکتا ہے کہ کس طرح سے سیاستدانوں سمیت دیگر بیوروکریٹس وآفیسران نے قومی خزانہ کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا۔ اگر آج بھی حقیقی بنیادوں پر احتسابی عمل شروع کیاجائے تو بڑے بڑے برج گرجائینگے مگر بدقسمتی سے انصاف کا فقدان ہے احتسابی عمل کو مشکوک بنانے والے سیاستدان ہیں اور ملک میں کتنے ادوار گزرگئے کہ ایک ایسا لیڈر پیدا ہو جو ایمانداری سے صرف ملکی نظام کو آئین اور قانون کے مطابق چلائے اور اداروں کو آزادانہ طور پر کام کرنے دے مگر حکمرانوں نے اپنی نالائقیوں کوچھپانے کیلئے ہمیشہ آزاد رائے کو دبانے کی کوشش کی تاکہ اصل حقائق سامنے نہ آسکیں۔
صرف یہ کہنا کہ سیاستدان، بیوروکریٹس اور سرکاری آفیسران ہی کرپشن کرتے آئے ہیں، درست نہیں بلکہ ہر ادارے کے اندر ایسے افراد موجود ہیں جوکسی نہ کسی طرح کرپشن میں ملوث ہیں جس میں صنعتکار بھی شامل ہیں جو آج دھندناتے پھرتے ہیں اور سر عام کہتے ہیں کہ کاغذوں کے نیچے روپے کے پہیے لگائے جائیں تو ہر کام آسانی سے کیا جاسکتا ہے اس سے بڑھ کر اور کیا کرپشن کی مثال دی جاسکتی ہے۔بہرحال جمہوری اور مہذب معاشروں میں کرپشن کو معیوب سمجھا جاتا ہے مگر ہمارے یہاں اسے منافع اور مواقع کے حوالے سے بہترین حکمت عملی سمجھی جاتی ہے، عوام کے درد کا احساس نہیں کہ آج کس حد تک وہ اس کرپشن کی وجہ سے مزید غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔
اور انہی حکمرانوں کے کرپشن اور شاہی اخراجات کو ٹیکس وقرض کے ذریعے ادا کررہے ہیں جبکہ خود بنیادی سہولیات سے مکمل طور پر محروم ہیں اس لئے شفاف احتساب کے بغیر مہذب اور جمہوری معاشرے کی تشکیل ناممکن ہے اوراس حوالے سے کسی نہ کسی سیاسی لیڈر کو کردار ادا کرنا ہوگا۔ امید ہے کہ موجودہ حکومت خاص کر وزیراعظم پاکستان عمران خان تاریخ رقم کرتے ہوئے بلاتفریق آزادانہ اور شفاف احتسابی عمل کے ذریعے کرپٹ عناصر سے عوام کی جان چھڑائینگے۔