|

وقتِ اشاعت :   June 11 – 2020

کرونا وائرس کے آغاز سے پوری دنیا میں سخت لاک ڈاؤن کیا گیا، جب چین، اٹلی، ایران اور امریکہ میں کوروناوائرس کی وباء نے تباہی مچائی تو بیشتر ممالک نے ہر قسم کی نقل وحرکت کو محدود کرکے رکھ دیا۔ سب سے پہلے انہوں نے انسانی جانوں کے تحفظ کو ترجیح دی ناکہ اپنے معاشی شعبہ کے نقصان کے متعلق فکر مند ہوئے اور اس ہنگامی صورتحال میں تمام تر وسائل صحت کے شعبے پر لگائے تاکہ متاثرہ مریضوں کابروقت علاج ہوسکے اور یہ وباء تیزی سے نہ پھیلے، یہ فارمولا انتہائی کامیاب رہا۔ آج بعض ممالک نے لاک ڈاؤن ختم کردیا ہے،وہاں معمولات زندگی رواں دواں ہے مگر ہمارے ہاں کورنا وائرس کے کیسز میں نہ صرف تیزی آرہی ہے بلکہ اموات کی شرح بھی بڑھ رہی ہے۔

جس پر حکومت کی سب سے زیادہ توجہ سخت لاک ڈاؤن اور صحت کے شعبہ پر ہونی چاہئے کیونکہ اب یہ کہاجارہا ہے کہ اگست میں کرونا وائرس اپنے عروج پر ہو گا اور خدانخواستہ بہت زیادہ نقصان پہنچائے گا۔ بہرحال جو بھی پیشنگوئیاں کی گئیں وہ درست ثابت نہیں ہوئیں، کرونا وائرس پھیلتا ہی جارہا ہے رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ مئی، جون، جولائی پھر اگست اس پر اب باور کیسے کیاجائے جبکہ پہلے جو کہاجارہا تھا وہ سب کچھ غلط ثابت ہوا، تو اب کیسے اگست کی بات درست ثابت ہوسکتی ہے خدشہ ہے کہ جس طرح کی صورتحال چل رہی ہے رواں سال کے آخر تک کرونا وائرس موجود رہے گا لہٰذا حکومت اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرے وگرنہ عالمی وباء سے مزید نقصانات کا اندیشہ ہے۔

دوسری جانب کرونا وائرس کے باعث تعلیمی سرگرمیاں معطل ہیں فی الحال تعلیمی اداروں کو کھولنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے البتہ جولائی کے پہلے ہفتہ کے دوران تعلیمی اداروں کو کھولنے یا بندرکھنے کا باقاعدہ اعلان متوقع ہے مگر آن لائن کلاسز طلباء وطالبات کیلئے ایک بڑا مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ اسٹوڈنٹس کی جانب سے ہائیرایجوکیشن کمیشن کی جانب سے آن لائن کلاسز پر شدید ردعمل سامنے آرہا ہے کہ ان کیلئے یہ ناممکن ہے کیونکہ ملک کے بیشتر علاقوں میں طویل لوڈشیڈنگ اور انٹرنیٹ سہولیات کا فقدان اس میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے بہرحال بلوچستان کے طلباء وطالبات کی جانب سے زیادہ ردعمل دیکھنے کو مل رہا ہے۔

کیونکہ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ملک کے دیگر صوبوں کی نسبت بلوچستان کافی زیادہ پسماندہ ہے باوجود اس کہ ملک کا نصف حصہ ہونے کے آج بھی بنیادی سہولیات لوگوں کو میسر نہیں جبکہ انٹرنیٹ جیسی جدید سہولیات کا تصور ہی ممکن نہیں۔ بلوچستان کی آبادی منتشر اور وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی ہے یہاں ایسے قصبے بھی ہیں جہاں بجلی سرے سے موجودہی نہیں اورجن علاقوں میں بجلی دستیاب ہے وہاں بھی دن میں بمشکل صرف8 سے 10 گھنٹے بجلی کی ترسیل ہوتی ہے۔اب ایسے حالات میں بلوچستان کے طلباء وطالبات کیلئے آن لائن کلاسز سیشن کس قدر ذہنی اذیت کا باعث بن سکتا ہے۔

اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے اس فیصلے کے خلاف بلوچ اسٹوڈنٹس الائنس کی جانب سے کراچی پریس کلب کے باہر احتجاجاََ بھوک ہڑتالی کیمپ لگادیا گیا ہے جس میں طلباء وطالبات سمیت پروفیسرز بھی یہی مطالبہ کررہے ہیں کہ ہائیر ایجوکیشن اپنے فیصلہ پر نظر ثانی کرے۔ طلباء وطالبات کا مؤقف ہے کہ صرف فیسیں وصول کرنے کیلئے آن لائن کلاسز سیشن شروع کیاجارہا ہے۔

چونکہ پہلے سے ہی ہمارے تعلیمی اداروں میں سہولیات کا فقدان ہے جنہیں 72 سالوں کے دوران بہتر نہیں کیا گیا، اربوں روپے بجٹ میں مختص کرنے کے باوجود تعلیمی ادارے خستہ حال ہیں۔ بہرحال اس وقت بلوچستان کے طلباء وطالبات ہائیرایجوکیشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف سراپا احتجاج ہیں اور اس فیصلہ کو واپس لینے کا مطالبہ کررہے ہیں لہٰذا صوبائی حکومت بھی زمینی حقائق کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اسٹوڈنٹس کے مطالبات پر غور کرے تاکہ ان کی مشکلات میں کمی آسکے۔