ہم کم عمر اور عقل میں بھی کمزور تھے، ہمیں اسکول میں پڑھایا گیا کہ سندھ سے ایک مظلوم عورت نے دہائی دی، دور دیار سے ایک جرنیل آیا سندھ کو فتح اور اس مظلوم عورت کو آزاد کیا۔ پھر ہم بڑے ہوئے، کچھ عقل آئی، اسکول سے ہٹ کر کچھ پڑھنے کا موقع ملا، زمانہ دیکھا تب سمجھ آیا یہاں معاملہ ہی الٹا ہے، دھرتی کے فرزند راجہ داہر کو خوامخواہ غدار بنانا ایک غاصب اور ڈکیت کو ہیرو بنا کر اس کی تاریخ پہ نازاں ہونا بحرحال یہ یہاں کی روایت ہے۔
المیہ کہیں یا تاریخ کا ریپ، نصابی کتب ڈکیت اور غاعصبوں کی ایسی کہانیوں سے بھری پڑی ہیں جنہیں ہیرو اور یہاں کی حقیقی جنم بھومی اپنی مٹی پہ سروارنے والے بہادر سپوتوں کو غدار،ملک دشمن پتا نہیں کیا کیا نام دیا جاتا ہے۔اپنا وطن بلوچستان ایک مضطرب دور سے گزر رہا ہے، اس کے جنم بھومیوں،حق جتانے والوں کو ملک دشمن، غدار،کافر پھر لاپتہ اور مسخ لاش بنایا جانا کہانیاں نہیں تاریخ ہے، ہوسکتا ہے مستقبل بعید کا نصابی کتب ایسی کہانیوں کو یہاں کے بچوں کے لیئے محفوظ رکھ لے، تاریخ کا کیا ہے اسے بدلتے دیر کب لگتی ہے۔
سندھ کے مظلوم عورت کی دہائی پر جاگ اٹھنے والوں کو حسیبہ بلوچ کے آنسو کیوں نہیں نظر آتے،کوئی سنگ دل ہوگا جنہیں حسیبہ کی بے بسی نے مغموم اور دلدوز آہوں نے رلا نہ دیا ہو۔ ہم کب سے ایسے کرب اور اذیتوں کے شکار، تصاویر لے کر سڑکوں پر اپنے پیاروں کی بازیابی کی دہائیاں دیتے رہیں گے۔انہی سڑکوں پہ ذاکر مجید کی تصویر لیے فرزانہ پیدل بلوچستان ناپتی رہی، سمی دین سالوں تک ابو کی تصویر اٹھائے بلکتی چیختی رہی، ماہ رنگ بلوچ ابو کی بازیابی کے لیئے آنسو بہاتے کوٗٹہ کی انہی سڑکوں پڑ جوان ہوئی۔ مگر کیا ہوا، نہ فرزانہ کو زاکر مجید ملا، سمی کو ڈاکٹر دین محمد اور نا ہی ماہ رنگ کو اس کا ابو زندہ واپس دیا گیا۔ پھر بھی کوئی محمد بن قاسم خواب سے نہیں جاگا۔
ماہ رنگ بلوچ کچھ سال پہلے ایک معصوم بچی تھی جن کو کوئٹہ کی یخ بستہ سردیوں میں اپنے والد کی تصویر سینے پہ لگائے روتے بلکتے ہوئے دیکھا گیا۔ایک دن ان کو غفار لانگو کی مسخ لاش دی گئی، تب سے ڈاکٹر ماہ رنگ محمد بن قاسم بن کر ہر اس عورت کی آواز بن جاتی ہے جو استحصال کا شکار ہے،ان کا ابو، بھائی یا قریبی عزیز غائب ہے۔ایک ماورائی محمد بن قاسم کی سچ سے بہت دور کہانی کے بجائے ڈاکٹر ماہ رنگ کی عملی جدوجہد اپنی دھرتی پہ مٹنے والے راجہ داہر کا تسلسل ہے، تاریخ قربانیوں کا احترام کرتی ہے۔
حسیبہ قمبرانی کی لہو میں ڈوبی کرب سے گزری آواز اور ان کے گرتے آنسو ایک تاریخ بنا رہی ہیں۔
ایک ایسی تاریخ جو قوت سے مسخ نہیں ہوسکتی اگر چاہیں تو اس تاریخ کا رخ اپنی مہربانیوں، غلطیوں کی معافی اور بلوچوں کو برابر کے شہری کا درجہ دے کر موڑا جاسکتا ہے۔ضد اور انا کے بل پر ”بنگالی ٹھینگے“ آج آپ سے زیادہ خوش حال اور آزاد حیثیت کے مالک ہیں۔ غداری کے سرٹیفکیٹ واپس کیجئے، مسخ لاشوں کا سلسلہ روکیئے اور جن ہزاروں بلوچوں کو لاپتہ کر کے ان کے گھر والوں کو اذیت ناک زندگی کا شکار بنایا گیا ہے ان تمام کو جو زندہ ہیں واپس لائیے،اس ملک کو مضبوط بنانے میں کمال آپ کا ہے۔
حسیبہ کے آنسو اور جی یہ بلوچ چاہتے کیا ہیں دو الگ راہیں ہیں۔ اگر سفر یونہی جاری رہا تو منزل بھی الگ نکلے گا۔