سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست پر معاملہ زیر سماعت ہے اور آج کی سماعت کے دوران جسٹس مقبول باقر نے یہ ریمارکس دیے کہ کسی نے بھی نہیں کہا کہ جج کا احتساب نہیں ہوسکتا، جج کا احتساب صرف قانون کے مطابق ہی ہوسکتا ہے اور سپریم کورٹ کے جج کا بھی احتساب ہوسکتا ہے۔
عدالت عظمیٰ میں 10 رکنی لارجر بینچ نے جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست پر سماعت کی، اس دوران حکومتی وکیل فروغ نسیم نے دلائل دینے کا سلسلہ جاری رکھا۔
خیال رہے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے جسٹس عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس بھیجا گیا تھا جسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔
اس معاملے پر اب تک متعدد طویل سماعتیں ہوچکی ہیں جبکہ سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان اس کیس میں پہلے وفاق کی نمائندگی کر رہے تھے تاہم ان کے مستعفی ہونے کے بعد نئے اٹارنی جنرل نے مذکورہ معاملے میں حکومتی نمائندگی سے انکار کردیا تھا۔
بعد ازاں مذکورہ معاملے کی 24 فروری کو ہونے والی آخری سماعت میں عدالت نے حکومت کو اس معاملے کے ایک کُل وقتی وکیل مقرر کرنے کا کہا تھا، جس کے بعد مذکورہ معاملے میں وفاق کی نمائندگی کے لیے فروغ نسیم نے وزیر قانون کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور اب وہ اس کیس میں پیش ہورہے ہیں۔
ایک طویل وقفے کے بعد اس کیس کی سماعت جون کے آغاز سے دوبارہ شروع ہوگئی ہے اور اب فروغ نسیم عدالت میں پیش ہوکر دلائل دے رہے ہیں جبکہ ایک سماعت میں ججز یہ عندیہ بھی دے چکے ہیں کہ وہ یہ کیس عدالت کی موسم گرما کی چھٹیوں سے پہلے ختم کرنا چاہتے ہیں۔
آج (جمعہ کو ) کیس کی سماعت کے دوران اپنے دلائل میں فروغ نسیم نے کہا کہ قانون میں جج کا لفظ دیا گیا ہے جس سے مراد مرد اور خاتون دونوں جج ہیں، اس پر جسٹس مقبول باقر بولے کہ کسی نے بھی نہیں کہا کہ جج کا احتساب نہیں ہوسکتا، جج کا احتساب صرف قانون کے مطابق ہی ہوسکتا ہے۔
جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کے جج کا بھی احتساب ہوسکتا ہے، اس پر فروغ نسیم نے کہا کہ یہ کبھی نہیں کہا کہ جج احتساب کو نہیں مانتے۔
انہوں نے اپنے دلائل میں کہا کہ آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی تادیبی ہوتی ہے ٹیکس کی نہیں، اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے حکومتی وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ 15 منٹ گزر چکے ہیں آپ اپنے دلائل جاری رکھیں۔
جس پر اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے فروغ نسیم نے کہا کہ برطانیہ میں جج کی اہلیہ کی جانب سے بار کو خط لکھنے پر جج کو جانا پڑا جبکہ برطانوی جج جبراٹر کے معاملے میں تو معمولی سی بات پر جج نے استعفیٰ دے دیا، یہاں پر تو کروڑوں کی جائیدادیں ہیں۔
اسی پر جسٹس یحییٰ آفریدی بولے کہ کیا ریفرنس فائل کرنے سے پہلے کسی نے جج یا ان کی اہلیہ سے جائیدادوں کے بارے میں پوچھا، جس پر جواب دیتے ہوئے فروغ نسیم نے کہا کہ جج سے جائیدادوں کا پوچھنے کیلئے مناسب فورم جوڈیشل کونسل ہے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم جوڈیشنل کونسل جائیداد کا ہی تو پوچھ رہی ہے، اسی پر بینچ کے رکن جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ صرف ایک بات بتا دیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ ٹیکس ریٹرنز جمع کراتی ہیں یا نہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر ٹیکس ریٹر جمع کراتی ہیں تو پھر اہلیہ زیر کفالت کیسے ہیں، جس پر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ میری معلومات کے مطابق جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ ٹیکس ریٹرنز جمع کرواتی ہیں، اس پر جسٹس منصور علی شاہ بولے کے ٹیکس قانون تو تمام شہریوں کے لیے ہے۔
اس پر فروغ نسیم نے عدالت کے سامنے یہ مؤقف رکھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں ٹیکس سے متعلق کارروائی نہیں ہوتی۔
دوران سماعت فروغ نسیم کی بات پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا پاکستان میں بطور شہری خواتین کے حقوق نہیں، کیا خواتین پاکستان میں علیحدہ جائیداد نہیں خرید سکتیں، یہ کیسے فرض کر لیا گیا کہ خواتین سے ٹیکس کا نہیں پوچھا جائے گا، یہ جمپ کیسے لے لیا کہ خاوند سپریم کورٹ کا جج ہے تو وہی جائیداد کا بتائے گا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا خاتون جج کا خاوند پینشن نہیں لے سکتا؟
عدالتی استفسار پر فروغ نسیم بولے کے وفاقی شرعی عدالت کے مطابق میاں بیوی ایک دوسرے کے بہت قریب ہوتے ہیں، وہ ایک دوسرے کی جائیداد کے محافظ ہوتے ہیں، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ بات تو درخواست گزار کو سپورٹ کرتی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ درخواست گزار نے اہلیہ کے اثاثوں پر پردہ نہیں ڈالا، ساتھ ہی بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کے جن دلائل میں وزن ہوگا صرف ان کی اہمیت ہے، شرعی طور پر ٹرسٹی کے لیے جواب دہ ہونا ہوتا ہے۔
سماعت کے دوران ہی جسٹس عمر کی بات کے ساتھ ہی جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ کتنی پڑھی لکھی بیویاں ہوتی ہیں جن کو شوہروں کی جائیدادوں کا علم بھی نہیں ہوتا، حتیٰ کہ ان کو دوسری بیوی کا بھی پتا نہیں ہوتا۔
اس پر فروغ نسیم نے کہا کہ جبرالٹر کے چیف جسٹس کی بیوی وکیل تھی، بیوی نے بار کے ساتھ بدتمیزی کی، معاملہ عدالت آیا تو چیف جسٹس کو گھر جانا پڑا۔
سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ رول آف پراکسیمٹی کیسے ٹیکس معاملات سے متعلق ہے؟ یہ بھی بتائیں کہ اثاثہ جات وصولی یونٹ (اے آر یو) کے علاوہ اور کون سی ایجنسیاں ہیں جو رول 4 اور 5 کے تحت بنی ہیں؟
انہوں نے ریمارکس دیے کہ مجھے ایسی کوئی ایجنسی نہیں ملی جو ان رولز کے تحت بنی ہو، آپ نے ان سوالات کے جوابات دینے ہیں۔
عدالتی بات پر فروغ نسیم نے کہا کہ پراکسیمٹی کا رول ایک بنیادی رول ہے، اگر کوئی جج اپنی اہلیہ جو اس کی زیر کفالت ہے یا نہیں اس کے اثاثوں کی تفصیلات دینے میں ناکام رہا تو یہ مس کنڈکٹ ہے۔
اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہ اگر سپریم کورٹ کی کوئی جج خاتون ہے تو کیا وہ اپنے شوہر کے اثاثوں کی تفصیلات دینے کی پابند ہے؟ لفظ ‘سپاؤس’ کی تعریف اور وضاحت ہونا ضروری ہے۔
ساتھ ہی جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ آپ بالکل نیا کیس بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، اس پر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ یہ کیس بنیادی طور پر ٹیکس قانون کے سیکشن 116 سے متعلق نہیں ہے۔
عدالت میں جاری طویل سماعت کے دوران فروغ نسیم نے قرآن پاک کی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کا لباس ہیں۔
جس پر بینچ کے رکن جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ فروغ نسیم اس آیت کا شان نزول بھی بتا دیں، آپ کو پتا ہی نہیں یہ آیت کیوں نازل ہوئی۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ نہ آپ فقہی ہیں اور نہ ہم ہیں۔
ساتھ ہی ایک اور رکن جسٹس قاضی امین نے فروغ نسیم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ ہمیں خطرناک صورتحال میں دھکیل رہے ہیں، یہ آیت کیس سے متعلقہ نہیں۔
اسہ دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے پوچھا کہ قرآن پاک میں اثاثوں کے بارے میں کہا گیا ہے، قرآن پاک میں امانت کو بھی اختیارات کہا گیا ہے، کیا قرآن پاک سے دیے گئے حوالے غیر مسلم ججز پر بھی لاگو ہوں گے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ قرآن پاک کو ہم نے ادب سے پڑھنا ہے، غیر ضروری اور غیر متعلقہ باتوں میں اس کا حوالہ نہ دیں، سوال یہ ہے کہ جائیدادیں بیوی کی ہیں تو اس کا جج سے تعلق ثابت کریں۔
سماعت کے دوران ہی جسٹس مقبول باقر بولے کے معاملہ قانون کے مطابق بہت آسان ہے، اگر قانون میں جوابدہی ہے تو وہ جواب دیں گے، قانون کے مطابق کارروائی تو شروع کر دی گئی، اس پر وکیل فروغ نسیم نے جواب دیا کہ ٹیکس کا قانون ریفرنس کے نکات میں سے ایک نکتہ ہے۔
جس پر جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ جب آپ ثابت کریں گے کہ یہ جائیدادیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی آمدن سے ہیں پھر منی ٹریل کا سوال ہوگا۔
سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ میاں بیوی کا تعلق اور رشتہ تو ہمیں معلوم ہے، آپ نے اس کیس میں بیگم کے مالی معاملات کا تعلق جج سے ثابت کرنا ہے۔
اس پرفروغ نسیم نے کہا کہ میں نے گزشتہ روز کفالت اور زیر کفالت کے قوانین کا حوالہ دیا تھا۔
اس پر جسٹس عمر عطا بندیال بولے کہ ایک جج کو گاڑی، گھر اور دیگر سہولیات ملتی ہیں لیکن اس کی فیملی بھی اس سے انجوائے کرتی ہے، آپ کے دلائل پر منطق بنتی نظر نہیں آتی۔
ساتھ ہی جسٹس منصور علی شاہ بولے کے فروغ نسیم آپ ہمارے سوالات کی تعریف کرتے ہیں لیکن جواب نہیں آتا، جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ میں سائل ہوں صرف گزارش کر سکتا ہوں۔
فروغ نسیم نے کہا کہ آئندہ سماعت پر بدنیتی اور اے آر یو پر دلائل دوں گا، شواہد اکٹھے کرنا اور جاسوسی کے نقطہ نظر پر بھی دلائل دوں گا۔
اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آئندہ سماعت ویڈیو لنک کے ذریعے ہوگی، کچھ ججز ممکن ہیں اسلام آباد میں موجود نہ ہوں، بعد ازاں معاملے کو پیر صبح ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔
واضح رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا تھا۔
ریفرنس میں دونوں ججز پر اثاثوں کے حوالے سے مبینہ الزامات عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل سے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی گئی تھی۔
سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو پہلا نوٹس برطانیہ میں اہلیہ اور بچوں کے نام پر موجود جائیدادیں ظاہر نہ کرنے کے حوالے سے جاری کیا گیا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاری کیا گیا دوسرا شو کاز نوٹس صدر مملکت عارف علوی کو لکھے گئے خطوط پر لاہور سے تعلق رکھنے والے ایڈووکیٹ وحید شہزاد بٹ کی جانب سے دائر ریفرنس پر جاری کیا گیا تھا۔
ریفرنس دائر کرنے کی خبر کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کو خطوط لکھے تھے، پہلے خط میں انہوں نے کہا تھا کہ ذرائع ابلاغ میں آنے والی مختلف خبریں ان کی کردار کشی کا باعث بن رہی ہیں، جس سے منصفانہ ٹرائل میں ان کے قانونی حق کو خطرات کا سامنا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت سے یہ درخواست بھی کی تھی کہ اگر ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا جاچکا ہے تو اس کی نقل فراہم کردی جائے کیونکہ مخصوص افواہوں کے باعث متوقع قانونی عمل اور منصفانہ ٹرائل میں ان کا قانونی حق متاثر اور عدلیہ کے ادارے کا تشخص مجروح ہو رہا ہے۔
بعد ازاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے سپریم کورٹ میں ریفرنس کے خلاف درخواست دائر کی گئی تھی جس پر عدالت عظمیٰ کا فل کورٹ سماعت کررہا ہے۔