گزشتہ پانچ دہائیوں کے دوران ملک میں کسی بھی حکمران جماعت نے یہ بات تسلیم نہیں کی کہ ملک کے کسی بحران کا وہ ذمہ دار ہے، ہر نئی حکومت ماضی کی پالیسیوں کو کوستے ہوئے بری الذمہ ہونے کے بہانے نکالتی ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ ماضی کی بدترین پالیسیوں کو بحرانات کی وجہ ٹھہرانے کے باوجود نئی پالیسیاں نظر نہیں آتیں جس طرح ماضی میں قرض لئے گئے اسی طرح آنے والی حکومت نے بھی آئی ایم ایف اورورلڈ بینک سے رجوع کیا،بیانات میں کوئی ردوبدل نہیں پالیسی بیان بھی یہی کہ سابقہ حکومت نے اتنے قرض لئے، مجبوراََ ہماری حکومت ان قرضوں کی ادائیگی کیلئے قرض لے رہی ہے۔
اور ٹیکسوں کا بوجھ بھی اسی طرح عوام پر ڈالاجاتا ہے۔ مہنگائی کے ذریعے عوام سے ٹیکس وصول کرکے مزید ان کی پریشانیاں بڑھائی جاتی ہیں جبکہ بڑے صنعت کاروں پر ہاتھ ہی نہیں ڈالاجاتا، نہ سیاستدان اور نہ ہی صنعتکار اپنی آمدن کے مطابق ٹیکس ادا کرتے ہیں اور کریں بھی تو کیوں چونکہ سیاسی جماعتوں کے انتخابات میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری یہی صنعتکار ہی کرتے ہیں اور انہیں بعد میں رعایت اسی طرح دی جاتی ہے۔ گزشتہ روز پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کے دوران مشیر خزانہ حفیظ شیخ کاکہنا تھا کہ قرض لینے کا شوق نہیں لیکن ماضی کے قرضوں کی واپسی کے لیے قرض لے رہے ہیں۔
اور ٹیکس محاصل میں اضافہ نہیں کریں گے توقرضوں کا بوجھ بڑھے گا۔ کورونا سے پہلے براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری میں 137 فیصد اضافہ ہوا، بجٹ میں کورونا کے اثرات سے نمٹنے کے ساتھ عوام کو ریلیف دینے پر بھی توجہ دی ہے،کورونا سے کاروباربند ہوئے تو ایف بی آرکی کلیکشن بھی متاثرہوئی۔انہوں نے کہا کہ کورونا کا بہانا نہیں بنارہے، پوری دنیا کورونا سے متاثرہوئی ہے، لوگ مشکل میں ہیں ان پر اضافی بوجھ نہیں ڈالنا چاہتے۔مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ نوکریاں پیدا کرنے کیلئے 40 سے 50 ارب کی ڈیوٹیز ختم کی ہیں، لوگوں کے لیے ٹیکس ادائیگی کوآسان بنایا جارہا ہے۔
اور ٹیکس لگانے کے بجائے مراعات دینے کوترجیح دی ہے، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی مڈل کلاس کی بہتری کیلئے کی۔انہوں نے کہا کہ ٹیکس دہندگان پر مزید بوجھ ڈالنے کے بجائے ٹیکس دائرہ کارکوبڑھایا ہے، پوائنٹ میں آف سیل پر ٹیکس کی شرح کوکم کیا ہے، تعمیرات کے شعبے میں ٹیکسزکو نصف کردیا ہے اور سیمنٹ پرایکسائز ڈیوٹی میں 25 روپے کمی کی ہے جبکہ امپورٹ پر ود ہولڈنگ ٹیکس کو بھی کم کیا جارہا ہے، نجی شعبے کیلئے مراعات دی گئی ہیں، ٹیرف لائنزپر ریگولیٹری ڈیوٹی کم کی ہے۔حفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ کوئی اضافی ٹیکس نہیں لگایا، کاروباری لاگت کوکم کرنے کیلئے اقدامات کیے ہیں۔
پریس کانفرنس کے ہر سطور کو بغور پڑھاجائے تو اس میں سوالات خود ہی پیدا ہوتے ہیں اور واضح ہوجاتا ہے کہ معیشت کی بہتری کے امکانات تو کجا بلکہ مزید مشکلات اور بحرانات سامنے آئینگے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مشیرخزانہ عبدالحفیظ شیخ بعض معاملات سے اتنے بے خبر ہیں کہ انہیں یہ معلوم ہی نہیں کہ ملک میں مہنگائی کی شرح کس قدر بڑھ چکی ہے جس کی ایک جھلک اس وقت دیکھنے میں آئی جب ایک صحافی کے ٹماٹر بحران کے دوران پوچھے گئے سوال کے جواب میں مشیر خزانہ نے دیا تھا۔ اب اسی طرح پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی پر مڈل کلاس کی بہتری کا جو ذکر کیاجارہا ہے۔
تو پہلے یہ سروے کرایاجائے کہ کتنے پیٹرول پمپس سے عوام کو پیٹرول آسانی سے دستیاب ہوا بلکہ عوام اس سستے پیٹرول کیلئے خواری کاٹتی رہی جبکہ پیٹرول پمپس مالکان پر کسی نے ہاتھ نہیں ڈالا اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہونے کے باوجود کسی بھی چیز کی قیمت میں کمی دیکھنے کو نہیں مل رہی۔ نہ جانے کونسی دنیا میں حکمران رہ رہے ہیں زمینی حقائق سے واقف نہیں اور سب کچھ بہتر کا راگ الاپ رہے ہیں۔