مکران کا صدر مقام تربت جہاں تمام انتظامی افسران کے دفاتر ہیں انتظامیہ کے اعلیٰ افسران بشمول کمشنر مکران کا دفتر بھی تربت میں ہوتا ہے۔ بلوچستان میں کوئٹہ کے بعد تربت صوبے کا سب سے بڑا شہرہے۔ ایک حلقے کاکہنا ہے 2013 کے الیکشن کے بعد ڈاکٹر مالک بلوچ نے تربت کو کوئٹہ کے برابر کا کھڑا کردیا ہے۔ ویسے ڈاکٹر مالک بلوچ نے جس سرعت کے ساتھ تر بت کا نقشہ تبدیل کیا اس ملک میں بہت کم ایسا ہوا ہے۔ مالک بلوچ نے صرف ڈھائی سالہ دور وزارت میں شہر تربت کو نو رونقیں بخشیں مثالی ہیں یہ وہ عوامی تحائف ہیں جو مالک بلوچ نے اپنے دور وزارت میں مکران کے عوام کو دیئے۔
جبکہ محکمہ تعلیم میں خالص میرٹ پر نوجوانوں کو موقع دیا اور کئی قابل اور لائق نوجوان سامنے آئے۔ اہل تربت نے مالک بلوچ کے اس اقدام کو خوب سراہا۔ اس کے علاوہ شعبہ تعلیم میں جو طلباء صوبہ سے باہر پنجاب اور سندھ وغیرہ میں تعلیم حاصل کررہے تھے ان کو اسکالر شپ دی۔۔مقامی سطح پر مقامی اسکولوں کو اضافی کمرے، درس و تدریس کے مواد اور بہترین فرنیچر بھی دیئے گویا پارٹی کی اعلیٰ قیادت ایک بہترین اور عوام دوست راستے پر گامزن تھی لیکن اقتدار بھی بڑا بے رحم ہوتا ہے اور اس کے چسکے بھی لذیز ہوتے ہیں ایسا ہی ہوا مالک بلوچ کی پارٹی کے مقامی کرتا دھرتا جو خود کو عقل کل سمجھتے تھے۔
اور اقتدار کا جو چسکا ان کو لگا تھا یہ سب کچھ بھول چکے تھے خاص کر یہ اپنے ورکروں کو خاطر میں نہیں لاتے تھے ان کا خیال تھا کہ یہ عزت اور توقیر ان کو جو ملا ہے یہ ایک آسمانی تحفہ ہے پھر یہ ہوا کہ مقامی افلاطون اور ورکروں کے مابین فاصلے بڑھتے گئے۔ ورکروں کو پارٹی عہدوں سے دور رکھا گیا مقامی رہنما تین تین عہدے بیک وقت مثلاً سینٹرل کمیٹی، کور کمیٹی، مصالحتی کمیٹی اور نامعلوم کیا کیا کمیٹیوں کے عہدوں پر براجمان ہوتے رہے اور ورکروں کو یہ باور کراتے رہے کہ تم صرف جھنڈے لگانے کے مقدس کام کمیٹیوں کے چیرمین بنو۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نیشنل پارٹی کے ورکر مقامی لیڈرشپ سے نا صرف سے باصلاحیت ہیں۔
بلکہ زیادہ قابل بھی ہیں اس لیئے اْنہوں نے پیمانہ صبر کے چھلک جانے کے موسم کا انتظار کیا پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب الیکشن کا اعلان ہوا،یہ وقت کارکنوں کے لیے پر لطف اور کیف سے بھر پور وقت تھا۔ پھر دلچسپ بات یہ ہوئی کہ مقامی عہدے دار بڑھ چڑھ کر لذت جام کو ہونٹوں سے لگانے کی تگ و دو میں لگ گئے یہ وہ وقت تھا جن کا کارکنوں کو انتظار تھا۔پھر جب ایوان زیریں اور صوبائی اسمبلیوں کے ٹکٹوں کی تقسیم شروع ہوئی تو مقامی عہدہ داروں میں ہر ایک نے ٹکٹ کو اپنا پیدائشی حق جتانے کی بھر پور کوشش کی۔
پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو ٹکٹ سے محروم کرنے کی کوششوں نے زور پکڑا اور بھائیوں نے تربت کے حسین موسم جو حسن امتزاج سے بھرپور ہوتا ہے مہکتی گوربام میں ایوان زیریں کے سہانے خواب دیکھے اور پھر جمعہ شریف کے خیرات کی مانند ٹکٹ ان کے دائیں یا کچھ لوگوں کے مطابق ان کے بائیں ہاتھ میں دے دی گئی اور یہ شرط رکھی گئی کہ رکن پارلیمان بننے کے لیئے اب چناؤ بھر پور انداز میں لڑیں۔نامزد امیدواروں کو یہ قطعاً علم نہ تھا کہ کھیل جیتنے کے لیئے گھوڑا اور گھڑ سوار کا مضبوط ہونا جتنا ضروری ہے اس سے زیادہ ہمت اور یقین بازی پلٹ دیتی ہے اور ہمت نامی چیز ان میں تھی ہی نہیں۔ دوسری طرف پارٹی کے کارکنوں کے لیئے آزمائش کا وقت تھا جو مقامی امیدواروں کا ساتھ چھوڑ چکے تھے۔