بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں سے وابستہ لوگوں کی امیدیں آئندہ چند سالوں میں دم توڑتی دکھائی دے رہی ہیں کیونکہ بلوچستان کے عوام کو جتنے خوش کن خواب دکھائے گئے،اتنے ہی بدتر حالات کا انہیں سامنا کرناپڑا۔ 2013ء میں جب بلوچستان میں مخلوط حکومت تشکیل پائی تو اس میں مرکزی حکومت کے سربراہ نواز شریف کے ساتھ ملکر نیشنل پارٹی اور پشتونخواہ میپ نے ایک فارمولہ طے کیا کہ بلوچستان میں حکومتی نظام کو چلانے کیلئے پہلے مرحلے میں وزیراعلیٰ کا عہدہ قوم پرست جماعت کو دیا جائے گا اور کابینہ مشترکہ طور پر تشکیل دی جائے گی جسے مری معاہدہ کے نام سے منسوب کیا گیا اور اس طرح نیشنل پارٹی کے صدر ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ پہلے اڑھائی سال کیلئے وزیراعلیٰ بلوچستان بنے۔
بہرحال بعض حلقوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کہ پہلی مرتبہ صوبہ کے وزیراعلیٰ مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں اور ایک ترقی پسندانہ سوچ کے حامل ہیں اور بلوچستان کے درد کو محسوس کرتے ہیں کیونکہ ان کا براہ راست تعلق عوام سے ہے اور گراس روٹ سے وہ اس منصب تک پہنچے ہیں مگر ان اڑھائی سالوں کے دوران بلوچستان نے کتنی ترقی کی اور کتنے مسائل حل ہوئے، اس کا اندازہ موجودہ بلوچستان کے حالات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔البتہ یہ ضرور ہے کہ ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ نے تربت میں بہترین کارنامہ ترقیاتی کاموں کے حوالے سے سرانجام دیا جس پر وہ خود بھی فخریہ طور پر کہتے ہیں کہ اپنے حلقے کے رقم میں کوئی خورد برد نہیں کی مگر خود سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ کی زبانی کہ جتنے فنڈز مجھے ملے اس سے کئی گنا زیادہ فنڈز ترقیاتی اسکیمات کی مد میں دیگر ایم پی ایز کو بھی ملے۔
مگروہاں اس طرح کے ترقیاتی کام نہ ہونے کی ذمہ داری میری نہیں بلکہ وہاں کے منتخب نمائندگان کی ہے جنہوں نے اتنی رقم ملنے کے باوجود بھی اپنے حلقوں میں کام نہیں کیا۔ بہرحال اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دیگر وزراء وایم پی ایز نے عوامی رقم کو مال غنیمت سمجھتے ہوئے اپنی جیبوں میں ڈالا مگر بحیثیت وزیراعلیٰ بلوچستان اور کابینہ ٹیم کے کپتان کی حیثیت سے سوال ضرور کرنا چاہئے تھا کہ جو رقم انہیں عوام کی فلاح وبہبود وترقی کیلئے دی جارہی ہے وہ کیونکر عوام پر خرچ نہیں کی جارہی۔بہرحال یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ بلوچستان کے عوام کو کرپٹ ایم پی ایز کے رحم وکرم پر چھوڑ دیاگیا ہے۔
دوسری قوم پرست جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کو 2018ء میں عوام نے بڑی تعداد میں ووٹ دیا اور اسی بنیاد پر کہ بی این پی ان کے دردکا مداوا کرے گی اور اس طرح ایک نئی امید اور آس عوام نے بلوچستان نیشنل پارٹی سے لگائی۔ پی ٹی آئی نے حکومت سازی کا سلسلہ شروع کیا تو سردار اختر مینگل نے پہلے یہ شرط رکھی کہ میں کسی کے پاس نہیں جاؤنگا بلکہ انہیں ہمارے پاس آنا ہوگا یقینا ان کا براہ راست اشارہ پی ٹی آئی قیادت کی طرف تھا تو اس طرح کوئٹہ سریاب روڈ پر شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین ملاقات کیلئے سردار اختر مینگل کی رہائشگاہ پر پہنچے جہاں پر چھ نکات ان کے سامنے رکھ دیئے گئے اور بلوچستان کی ستر سال سے زائد پسماندگی اورزیادتیوں کا پورا نقشہ سامنے رکھ دیاگیا جس سے دونوں شخصیات بخوبی واقف ہونگے۔مگر مرکزی حکومت کو بارہا یاددہانی کرانا ضروری ہوتا ہے۔
چونکہ انہیں بلوچستان اتنا یاد نہیں رہتا ماسوائے اپوزیشن کے دوران جوکہ مرکزی جماعتوں کی پرانی روش ہے۔ بہرحال چھ نکات پر کتنا عملدرآمد ہوا ہے یہ بھی سب کے سامنے عیاں ہے کہ معاملات ابھی بھی اپنی جگہ اسی طرح جوں کے توں ہیں اور بلوچستان کی پسماندگی اور زیادتیوں کا ازالہ کس حد تک کیا گیا، اس کابھی آج کے بلوچستان سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اب بلوچستان نیشنل پارٹی نے ایک بار پھر حکومت سے علیحدہ ہونے کی دھمکی دی ہے مگر بعض حلقے اسے محض ایک دعویٰ سمجھ رہے ہیں۔
بہرحال عوامی توقعات وامیدیں جس طرح دم توڑتی جارہی ہیں تو اس طرح نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی کیلئے آئندہ انتخابات میں نہ صرف مسائل پیدا ہونگے بلکہ سیاسی حوالے سے بھی انہیں بڑا نقصان اٹھانا پڑے گا۔ عوامی خواہشات اور اپنے وعدوں کی لاج رکھتے ہوئے عملی طورپر بلوچستان کیلئے کچھ کیاجائے وگرنہ قوم پرست سیاست زوال کی طرف جائے گی اور عوام کی ترجیحات سیاست کے حوالے سے بدل جائینگی۔