بلوچستان نیشنل پارٹی کی حکومت سے علیحدگی کے بعد بلوچستان کا مسئلہ قومی سطح پر جہاں زیر بحث آرہا ہے وہیں پر ایک روایتی تنقید بھی چند مبصرین کی جانب سے سننے کو مل رہا ہے کہ بلوچستان کی پسماندگی کے اصل ذمہ دار سردار اور نواب ہیں جنہوں نے ہمیشہ اپنے لوگوں کی ترقی کی راہ میں روڑے اٹکائے اور ترقیاتی کاموں کی بجائے اپنی مراعات کو ترجیح دی مگر بدقسمتی سے وہ کوئی ایسی دلیل پیش کرنے سے قاصر ہیں جسے کوئی ذی شعور منطقی طور پر سمجھ سکے کہ واقعی بلوچستان کی بدحالی کے ذمہ دار یہاں کے سردار ہیں۔
اگر ان سرداروں کے نام اور حکمرانی کے ادوار بھی گنوائے جائیں کہ کتنے عرصہ تک سردار اور نواب وفاق اور صوبے کے اہم عہدوں پر فائز رہے اور بااختیار ہوتے ہوئے انہیں بے تحاشاہ فنڈز اور پروجیکٹس دیئے گئے جنہیں خرچ کرنے کی بجائے اپنی جیبوں میں بھرے،افسوس کہ ان کے پاس نہ تو ثبوت ہیں اور نہ ہی تاریخی حکمرانی کے حوالے سے معلومات، ان کے پاس سطحی تنقید کے سوا کچھ بھی نہیں یہی وہ رویہ اور اسباب ہیں جس کی وجہ سے وفاق اور بلوچستان کے درمیان خلیج نہ صرف پیدا ہوئی بلکہ اس قدر بدگمانی ہوئی کہ بلوچستان کے حالات گھمبیر شکل اختیار کرتے گئے۔
خداراسچ لکھااور بولاجائے،تمام حقائق سامنے آئینگے کہ ستر سا ل سے زائد عرصہ تک بلوچستان کے ساتھ وفاقی حکومتوں کی روش کیا رہی ہے۔ حالیہ چند ادوار کی مثالیں لی جائیں کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے کتنے پروجیکٹس جن کابراہ راست تعلق وفاق سے ہے، انہیں پورا کرتے ہوئے یہاں کے عوام کو فائدہ پہنچایا اور کتنے فنڈز ترقیاتی اسکیمات کی مد میں دیئے گئے اور وہ مکمل نہ ہوسکے۔البتہ بلوچستان کی قوم پرست سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے پاس مکمل معلومات موجود ہیں کہ آج تک بلوچستان کے اہم منصوبے جو قومی خزانہ کو فائدہ پہنچارہے ہیں۔
ان میگا منصوبوں سے غریب صوبہ کو کتنا حق مل رہا ہے،محض رائلٹی کا رٹا لگاکر ملبہ سرداروں پر ڈال دیا جاتا ہے۔سوئی گیس جو بلوچستان سے نکالی جارہی ہے آج تک رائلٹی کی مد میں کتنا حصہ ملا ہے، ریکوڈک اور سیندک منصوبہ سے بلوچستان کو کتنا رقم ملاہے، این ایف سی ایوارڈ اور 18ویں ترمیم کے بعد بھی بلوچستان کی صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی کیونکہ اختیارات صوبہ کو دیئے ہی نہیں جاتے۔سرداروں کی مثال اپنی جگہ ایک سابق قوم پرست وزیراعلیٰ بلوچستان نے خود اس بات کا اعتراف روزنامہ آزادی کو دیئے گئے انٹرویو میں کیا تھا کہ گوادر میں ریت، بجری کے علاوہ باقی سب کچھ چین سے آرہا ہے۔
جو کسی قبائل کے سردار نہیں اب وہ خود کتنے بے بس تھے اس پر بحث کی گنجائش موجود ہے جبکہ ایسی ہزاروں مثالیں دلیل کے ساتھ موجود ہیں کہ بلوچستان کے ساتھ کس حد تک ناانصافیاں کی گئیں ہیں یقینا کوتاہی صوبائی حکمرانوں کی جانب سے بھی کی گئی ہے اور کرپشن سے کوئی انکار بھی نہیں کرسکتا کہ بلوچستان میں ٹینکی لیکس اس کی ایک واضح مثال ہے جبکہ ایم پی ایز فنڈز کا جس طرح سے ذاتی مفادات کے تحت استعمال کیا گیا یہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں حیرت کی بات یہ ہے کہ سردار اختر مینگل پر اب تنقید کی جارہی ہے جب انہوں نے وفاقی حکومت سے علیحدگی کا اعلان کیا ہے۔
اس سے قبل کیونکر یہ نہیں لکھا اور بولاگیا کہ پھر ایک سردار کے ساتھ معاہدہ کیاجارہا ہے لہٰذا سیاسی تناظر میں معاملات کو پرکھاجائے ذاتی ہدف بنانا غیرصحافتی رویہ ہے۔ مبصرین کو چاہئے کہ اس بات پر زور دیں کہ بلوچستان میں ہونے والی کرپشن کے خلاف نیب تفتیش کرے اور بلوچستان میں ریکارڈ کرپشن کرنے والی شخصیات کو بے نقاب کرے اور یہ مطالبہ بلوچستان کے عوام کرتے آئے ہیں، اب یہ ذمہ داری قومی اداروں کی ہے۔ بغیر کسی ثبوت کے محض سطحی تنقید اور الزام تراشی صحافتی اصولوں کے منافی ہے کہ اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے جسے چاہے آڑے ہاتھوں لیاجائے۔ لہٰذا بلوچستان کی پسماندگی کے خاتمے اور کرپشن سے پاک معاشرے کیلئے سب کو اپنا کردارر ادا کرنا چاہئے مگر الزام تراشی اور بدگمانیاں پیدا کرنا سراسر زیادتی ہے۔