اسلام آباد میں جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے زیراہتمام بلوچستان کے حوالے سے کل جماعتی کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں مختلف سیاسی جماعتوں نے شرکت کی۔کانفرنس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل کا کہنا تھا کہ صوبے کے مسائل حل کردیں تو پورا بلوچستان تحریک انصاف میں شامل ہوجائے گا۔حکومت میں جانا اب میرے بس میں نہیں، حکومت سے علیحدگی پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا فیصلہ ہے جو فرد واحد کا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ پارلیمانی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی نے ایوان میں حکومت سے لاتعلقی کا اعلان کیا ہو، ہم پہلے بھی حکومت کو وارننگ دیتے رہے ہیں۔سربراہ بی این پی کا کہنا تھا کہ حکومت واقعی سنجیدہ ہے تو بلوچستان کے مسائل کو حل کرے، بلوچستان کے مسائل حل کردیں تو بی این پی ہی نہیں پورا بلوچستان تحریک انصاف جوائن کرلے گا۔اس موقع پر جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ قومی مالیاتی کمیشن(این ایف سی) ایوارڈ میں کسی کمی کو قبول نہیں کیا جائیگا۔
مولانافضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ملک میں غیر آئینی اور غیر قانونی گرفتاریوں کی مذمت کرتے ہیں، حکومت کورونا وائرس کو روکنے میں ناکام ہے۔واضح رہے کہ بی این پی کی علیحدگی سے قبل تحریک انصاف کی حکومت کو قومی اسمبلی میں تمام اتحادیوں کی سپورٹ کے بعد 186 نشستیں حاصل تھیں جو اب بی این پی کی حکومت سے دستبرداری کے بعد 182 رہ گئی ہیں جب کہ حکومت برقرار رکھنے کے لیے 172 ارکان کی سادہ اکثریت درکار ہوتی ہے جو اب بھی برقرار ہے۔بہرحال وفاق میں پی ٹی آئی کی پوزیشن اب بھی مضبوط ہے۔
ان کے پاس سادہ اکثریت موجود ہے اس لئے حکومت کو کوئی خطرہ نہیں مگر بعض قیاس آرائیاں بھی سامنے آرہی ہیں کہ متحدہ قومی موومنٹ بھی چند دنوں میں اپنے مطالبات سامنے رکھے گی جنہیں پورا نہ کیا گیا تو حکومتی اتحاد سے علیحدگی پر غور کرے گی، اسی طرح بلوچستان کی جماعت جمہوری وطن پارٹی نے بھی اپنے خدشات کااظہارکیا ہے نوابزادہ شاہ زین بگٹی نے بگٹی مہاجرین کی واپسی کے حوالے سے وفاقی حکومت کو وعدہ پورا نہ کرنے پر ناراضگی ظاہر کی ہے مگر دونوں جماعتوں کی حکومت سے الگ ہونے کے فی الوقت امکانات دکھائی نہیں دے رہے،البتہ یہ ضرور ہے کہ پی ٹی آئی کیلئے مشکلات بڑھ سکتی ہیں اگر اتحادی اسی طرح ناراض ہوتے رہے۔ اس وقت جو صورتحال چل رہی ہے۔
ان تمام معاملات کو وفاقی حکومت بات چیت کے ذریعے حل کرے چونکہ نظام کے تسلسل کے ساتھ چلنے سے ملک بہتری کی جانب گامزن ہوگا، ماضی ہمارے سامنے واضح مثال ہے کہ سیاسی جماعتوں کی چپقلش کے باعث جمہوریت کو شدید نقصان پہنچا جس کے ذمہ دار خود سیاسی جماعتیں ہیں۔لہٰذا وفاق میں حکومت کرنے والی جماعت کو بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے حقیقی مسائل کو حل کرنا چاہئے جو ملک کے وسیع تر مفاد میں ہے اور اس کا فائدہ بھی عوام کو براہ راست پہنچے گا۔ ملک میں ستر سال سے زائد عرصہ کے دوران مختلف جماعتوں نے وفاق میں حکومت بنائی۔
خامیاں سب میں رہی ہیں مگر ان کا ازالہ کرنا انتہائی ضروری ہے کیونکہ ملکی نظام کو چلانے کیلئے تمام صوبوں کو ساتھ لیکر چلنا چاہئے، ناراضگیاں اورتلخیاں سیاست میں چلتی رہتی ہیں مگر ہر مسئلہ کا حل موجود ہے اگر اسے سنجیدہ لیاجائے۔امید ہے کہ وزیراعظم عمران خان موجودہ سیاسی جماعتوں کے درمیان ناراضگیوں کو ختم کرنے کیلئے بہترین اقدامات اٹھائینگے تاکہ ملک میں موجود مسائل حل ہوسکیں۔