|

وقتِ اشاعت :   June 23 – 2020

بلوچستان نیشنل پارٹی اور جمعیت علماء اسلام کے سربراہان سردار اخترمینگل اور مولانافضل الرحمان کے درمیان گزشتہ روز ایک ہی دن میں دو ملاقاتیں ہوئیں، ملاقات کے دوران ملکی وعلاقائی سیاست پر بات چیت ہوئی، ان ملاقاتوں کو غیر معمولی تناظر میں دیکھا جارہا ہے کہ دونوں رہنماء آئندہ کے حوالے سے ایک نئی سیاسی حکمت عملی پر مشترکہ لائحہ عمل طے کرکے چلنا چاہتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان نے سردار اختر مینگل کو اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کی پیشکش کی ہے مگر اس وقت بی این پی حتمی اور جلدبازی میں فیصلہ کرنے سے گریز کررہی ہے کہ اگر وہ اپوزیشن میں شامل بھی ہوجاتی ہے۔

تو کیا اپوزیشن کے سامنے بی این پی کے چھ نکات اہم ہونگے جنہیں فوقیت دی جائے گی، بالکل بھی نہیں کیونکہ پہلے تو اپوزیشن خودبھی اب تک کسی ایک نکتہ پر متفق نہیں ہے جو کہ وفاقی حکومت کے سامنے ایک مضبوط اپوزیشن کے طور پر دکھائی دے، چونکہ ہر جماعت کے اپنے ایجنڈے ہوتے ہیں اور ان کی کوشش اپنی پوزیشن کو بہترین بارگیننگ پر لاناہوتا ہے چاہے معاملات مقتدر حلقوں سے ہی کیوں نہ جڑے ہوں۔اور یہ دیکھنے کو بھی ملا ہے کہ جب بھی ملک کی بڑی جماعتوں کو مواقع ملے یاپھر انہیں ایڈریس کیا گیا تو انہوں نے انکار نہیں کیا،کچھ لو کچھ دو کے تحت دو بار اپنے معاملات ٹھیک کئے جس کا تجربہ سردار اختر مینگل کو ہے۔

مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی دونوں اس وقت درمیانہ پچ پر ہی کھیل رہی ہیں اور تاک لگائے بیٹھے ہیں کہ اگر انہیں کوئی اشارہ مل جائے تو وہ فوری طور پر لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے تلخی سے نرمی کی طرف بڑھتے ہوئے مطالبات کا پلندہ رکھ دینگے جس میں چند کی منظوری کے بعد وہ اپنے سیاسی قبلہ کا رخ موڑ ینگے اور یہی سیاسی بازیگری کا بہترین نمونہ ہے۔بہرحال اب تک تو اپوزیشن کی بڑی جماعتوں کو سبزجھنڈی دکھائی نہیں دے رہی، اس لئے وہ فی الحال درمیانہ لہجہ اپناتے ہوئے وقت اور حالات کے انتظار میں ہیں مگر اس دوران جو کچھ آسانیاں پیدا کی گئی ہیں ان سے مستفید ہورہے ہیں۔

البتہ بی این پی اس تمام صورتحال کے پیش نظر اپنے گراؤنڈپر کھیلنے کو ترجیح دے رہی ہے، اس لئے اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ جانے کو تیار نہیں۔ بہرحال بات چیت سب کے ساتھ جاری ہے مگر اس پورے دورانیہ میں ایک بڑی تبدیلی یہ دیکھنے کو مل رہی ہے کہ بی این پی اور جمعیت عمائے اسلام بلوچستان میں ایک ہنگامہ برپا کرنے کی طرف جارہے ہیں اس حوالے سے ان کی تیاریاں جاری ہیں،طریقہ کار اور حکمت عملی طے ہونے کے پہلاراؤنڈ کھیلا جائے گا جو کہ ٹیسٹ ہوگا کہ انہیں کس حد تک کامیابی مل سکتی ہے جس کا بنیادی مقصد بلوچستان حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانا ہے۔

گوکہ یہ اتنا آسان نہیں کہ مطلوبہ اہداف جلد حاصل کئے جاسکیں،یہ دعوے تو کئے جارہے ہیں کہ بلوچستان حکومت میں شامل بعض ارکان جس میں باپ کے رکن اسمبلی بھی شامل ہیں، ان کے روابط بی این پی کے ساتھ موجود ہیں مگر مرحلہ وار جب بیٹھک لگے گی تب سیاسی تبدیلیوں اور مضبوط سیاسی پوزیشن کا اندازہ لگا یا جاسکے گا۔ بہرحال بلوچستان حکومت پر دونوں جماعتوں کا سب سے زیادہ غصہ غیر منتخب نمائندوں کے ذریعے ان کے حلقوں کے اندر مداخلت کا ہے جو کہ مستقبل میں سیاسی حوالے سے ان کیلئے مشکلات کا باعث بن سکتی ہے۔ آئندہ چند روز اہم ہونگے کیونکہ جلد ہی کوئٹہ میں اپوزیشن کی ایک بڑی بیٹھک لگنے والی ہے۔

جس میں سیاسی سرگرمیوں میں تیزی لائی جائے گی جس میں خاص ایجنڈا حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ہوگا، یہ کتنا کارگر ثابت ہوگا، یہ کہنا قبل ازوقت ہے مگر بلوچستان میں سیاسی ماحول میں ایک نئی ہلچل کا آغاز ضرور ہونے جارہا ہے جس کے نتائج اپوزیشن کی خواہشات کے برعکس بھی آسکتے ہیں یا پھر کوئی بڑا کرشمہ بھی ہوسکتا ہے جو شاید توقعات سے ہٹ کر ہو۔بہرحال وفاقی حکومت کے ساتھ بی این پی کے معاملات کاطے ہونا مشکل دکھائی دے رہاہے جبکہ اپوزیشن کے ساتھ بی این پی نہیں جائے گی اور مستقبل میں وہ آزاد بنچوں پر ہی بیٹھے گی، اگر وفاق میں کوئی تبدیلی کے آثار پیدا ہوتے ہیں تو یقینا بی این پی کیلئے یہ بھی خسارے کا سودانہیں ہوگا۔