ملک میں سیاسی صورتحال واقعی بدلنے جارہی ہے وفاقی حکومت کیلئے آنے والے دنوں میں مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں؟ سیاست میں امکانات کو رد نہیں کیاجاسکتا اور کچھ بھی کبھی بھی ہوسکتا ہے جس کی نظیر ماضی کی تاریخ میں ملتی ہے۔ مگر گزشتہ دو ادوار پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے ساتھ ہونے والے معاملات کا جائزہ لیاجائے تو اس دوران وزراء اعظم کو گھر بھیجا گیا مگر یہ حالات پر ہی منحصر ہے کہ کب کس طرح سے تبدیلی رونما ہوسکتی ہے۔ حال ہی میں بلوچستان کی ایک جماعت بی این پی نے حکومت سے علیحدگی کا فیصلہ کیا تو چند روز ہی گزرے کہ بلوچستان کی دوسری جماعت جو وفاق میں اتحادی ہے۔
جے ڈبلیو پی نے بھی معاہدوں پر عملدرآمد نہ کرنے پر ایک ہفتے کا وقت دیکر علیحدگی کی دھمکی دی ہے البتہ جمہوری وطن پارٹی کی قومی اسمبلی میں صرف ایک نشست ہے جو پارٹی سربراہ نوابزادہ شاہ زین بگٹی کی ہے،مگر اس اعلان کے بعد کوئی خاص ردعمل وفاقی حکومت کی جانب سے دیکھنے کو نہیں ملا جس طرح سے بی این پی کے ساتھ روابط جاری رکھتے ہوئے بات چیت کا سلسلہ جاری ہے مگر ایک یا درجن نشست مسئلہ نہیں بلکہ اشارہ ہیں کہ اندرون خانہ کوئی کچڑی پک رہی ہے ایسے حالات میں ملکی سیاست میں جسے اہم گیم چینجر سمجھا جاتا ہے۔
اگر ان کا بیان سامنے آئے تو یقینا سیاسی ماحول میں گہماگہمی ایک نیا موڑ لے سکتی ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری کو بعض سیاسی حلقے ملکی سیاست کا اہم کھلاڑی سمجھتے ہیں اور جس سیاسی انداز میں انہوں نے اپنی حکومتی مدت پوری کی جوکہ توقع کے برعکس تھی کیونکہ بلوچستان میں گورنر راج لگنے کے باوجود بھی اسمبلی چلتی رہی،اسی طرح ان کے وزیر اعظم کو گھر بھیجا گیا مگر حکومتی معاملات میں کوئی مشکلات پیش نہیں آئیں۔ حالیہ سیاسی تناظر میں آصف علی زرداری نے پارٹی رہنماؤں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاق میں بیٹھے لوگ سیاسی ادراک نہیں رکھتے، ہر بحران کو مزید گہرا کر دیتے ہیں۔
وفاقی حکومت صوبوں کو مضبوط بنانے کی بجائے انہیں مزید کمزور کررہی ہے، یہ نہ آئین کو مانتے ہیں نہ کسی اصول کو بلکہ ہر چیز توڑ پھوڑ دینا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی آج بھی بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے لیکن شرط یہ ہے کہ بلوچ نوجوان مسلح جدوجہد کو ترک کرکے سیاسی جدوجہد میں واپس آئیں۔انہوں نے کہا کہ ریاست کو بھی بلوچستان میں اب زیادہ محتاط ہونے کی ضرورت ہے، اگر اکبربگٹی جیسا کوئی دوسرا واقعہ ہوگیا تو حالات کو سنبھالنا کسی کے بس میں نہیں رہے گا۔
آصف علی زرداری نے خاص کر پنجاب کے حوالے سے کہا کہ پنجاب میں جیالے متحد رہیں، جلد اچھا وقت آنے والا ہے، مقدمات کا کوئی خوف نہیں، پہلے بھی عدالتوں میں مقابلہ کیا اب بھی کریں گے۔سابق صدر کے اس بیان کو بعض مبصرین غیر معمولی سمجھ رہے ہیں اور کہاجارہا ہے کہ آصف علی زرداری پارٹی کو متحرک کرنے جارہے ہیں سب سے پہلے پنجاب میں اہم بیٹھک لگائی جائے گی اوراہم سیاسی شخصیات کو پیپلزپارٹی کے آئندہ کے حکمت عملی سے آگاہ کرتے ہوئے ساتھ چلنے کیلئے قائل کیاجائے گا۔
اسی طرح بلوچستان میں وفاق سے ناراض جماعتوں کو آن بورڈ لیتے ہوئے بلوچستان میں بڑی تبدیلی کے حوالے سے تعاون کرنے کیلئے معاملات طے کیے جائینگے جبکہ دیگر حکومتی ارکان جو پہلے بھی آصف علی زرداری کے ساتھ روابط میں تھے ان کے ساتھ نہ صرف بات چیت کی جائے گی بلکہ بہت جلد پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت بلوچستان کا دورہ بھی کرے گی جہاں پر اہم ملاقاتیں کی جائینگی۔چونکہ مسلم لیگ ن کی بلوچستان حکومت میں عدم اعتماد کی تحریک کے حوالے سے پیپلزپارٹی کا نام سرفہرست آتا ہے اس لئے تبدیلی کے امکانات کو رد تو نہیں کیاجاسکتا مگر یہ تمام صورتحال آئندہ ایک دو ہفتوں کے دوران واضح ہوجائے گی۔
کہ آصف علی زرداری کا حالیہ بیان محض شوشہ ہے یا پھر بیک ڈور کچھ معاملات چل رہے ہیں اور اشارے مل رہے ہیں جس پر انہوں نے پنجاب اور بلوچستان کا ذکر خاص طور پر کیا ہے۔ بہرحال سیاست میں کچھ بھی حرف آخر نہیں، قیاس آرائیاں تو بہت کی جارہی ہیں مگر آئندہ چند ہفتوں میں قومی سیاست کا نقشہ واضح ہوجائے گا۔