کو ئٹہ: بلوچستان اسمبلی میں آئندہ مالی سال کے بجٹ پر بحث جاری،اجلاس کے دوران حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی خواتین اور اقلیتی اراکین نے بجٹ میں نظرانداز کئے جانے کیخلاف ایوان میں زمین پر بیٹھ کراحتجاج کیااجلاس میں صوبائی وزراء نے آئندہ مالی کے بجٹ کو موجودہ صورتحال میں ایک متوازن بجٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ تمام ارکان کی تجویز کردہ تمام منصوبوں کو بجٹ میں شامل نہیں کیا جاسکتا اپوزیشن کو چاہئے کہ وہ بجٹ پر بحث میں حصہ لیں اور اپنی تجاویز سامنے لائیں تاہم اپوزیشن اراکین اپوزیشن کی اسکیموں کو بجٹ سے نکالنے کی مذمت کرتے ہوئے بجٹ کو مسترد کردیا۔
تفصیلات کے مطابق بدھ کے روزبلوچستان اسمبلی کا اجلاس سپیکر میر عبدالقدوس بزنجو کی زیر صدارت ایک گھنٹہ پچیس منٹ کی تاخیر سے شروع ہوا۔ اجلاس میں جامعہ بنوریہ کے مہتمم مفتی نعیم اور اسد مرزا کے ایصال ثواب کے لئے فاتحہ خوانی کرائی گئی۔اجلاس کے آغاز پر بی این پی کے رکن اسمبلی احمد نواز بلوچ نے آن لائن کلاسز کے اجراء کے خلاف طلبہ کی احتجاجی ریلی میں شریک مظاہرین کی گرفتاری کی جانب ایوان کی توجہ مبذول کرائی۔
جس پر سپیکر نے صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران کو اس معاملے کا جائزہ لینے کی ہدایت کی۔ گزشتہ اجلاس میں اپوزیشن رکن کی جانب سے ایجوکیشن سٹی پروگرام سے متعلق احتجاج کے بعد سیکرٹری سیکنڈری ایجوکیشن کو سپیکرچیمبر میں بریفنگ کے لئے طلب کیاگیا تھا تاہم سپیکر میر عبدالقدوس بزنجو نے ایوان کو آگاہ کیا کہ سیکرٹری ایجوکیشن نہیں آئے حالانکہ ہم نے انہیں تحریری مراسلہ بھی بھیجا تھا اس سے سپیکر اور ایوان کا استحقاق مجروح ہوا ہے انہوں نے قواعد وانضباط کار کے تحت اس معاملے کو ایوان کی استحقاق کمیٹی کے سپرد کرتے ہوئے رولنگ دی۔
کہ کمیٹی تین دن کے اندر اس حوالے سے اپنی رپورٹ پیش کرے۔اجلاس میں پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے نے پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے کہا کہ آن لائن کلاسز کے اجراء سے قبل حکومت کو چاہئے تھا کہ وہ طلباء کو تمام تر سہولیات فراہم کرتی تاہم حکومت نے اس ضمن میں خاطرخواہ کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا پرائیویٹ سکولز گزشتہ چھ مہینوں سے بند پڑے ہیں۔
اس دوران انہوں نے کئی مرتبہ متعلقہ حکام سے رابطہ کیا مگر کوئی شنوائی نہیں ہوا اور آج بھی وہ اسمبلی کے باہر سراپا احتجاج ہیں۔ حکومت احتجاج پر بیٹھے پرائیویٹ سکولز انتظامیہ سے مذاکرات کرکے ان کے لئے خصوصی پیکج کا اعلان کرے۔بی این پی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوانی نے اسمبلی کے باہر احتجاج پر بیٹھے تحریک بحالی بی ایم سی کے مظاہرین کی جانب ایوان کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ حکومت مظاہرین سے ملاقات کرکے ان کا مسئلہ حل کرائے۔
بی این پی کے ثناء بلوچ آن لائن کلاسز کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبہ وطالبات کی گرفتاریوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں انٹرنیٹ کی صورتحال ہمارے سامنے ہے صوبے کے33اضلاع میں سے7اضلاع میں تھری جی پر پابندی ہے جہاں نیٹ کی سہولت دستیاب ہے وہاں بجلی کی سہولت نہیں ہے باقی صوبہ تو درکنار یہاں کوئٹہ میں بھی چھ سے سات گھنٹے یومیہ لوڈشیڈنگ ہورہی ہے۔
حکومت ایچ ای سی کے ساتھ بیٹھ کر اس مسئلے کا سنجیدہ حل نکالے اور طالبات کے لئے سات سے آٹھ ہزارروپے آن لائن پیکج کے لئے فراہم کئے جائیں۔انہوں نے کہا کہ بی ایم سی کے احتجاجی اساتذہ اور طلبہ سے وعدہ کیا گیا تھا کہ سات روز کے اندر مسئلہ حل ہوجائے گا تاہم یہ مسئلہ کئی مہینے گزرنے کے باوجود حل نہیں ہواجس کی وجہ سے لوگوں کا اعتماد اسمبلی کے اس ایوان سے اٹھ رہا ہے۔
صوبائی وزیر خزانہ میر ظہور بلیدی نے کہا کہ سات اضلاع میں ایجوکیشن سٹی کے قیام کے منصوبے کو کابینہ نے پورے صوبے تک وسعت دی ہے حکومت ہر ضلع میں 56ایکڑ اراضی اس مقصد کے لئے مختص کرے گی۔انہوں نے کہا کہ بی ایم سی کے ملازمین اور طلباء سے بات ہوئی ہے حکومت تمام اعلیٰ تعلیمی اداروں کے ایکٹ میں ترمیم لارہی ہے کورونا وائرس کی وجہ سے اس معاملے پر کام کی رفتار سست ہوگئی تھی۔ بی این پی کے اختر حسین لانگو نے کہا کہ سپیکر رولنگ دیں کہ آئندہ اسمبلی کے سامنے اپنے جائز مطالبات کے لئے مظاہرہ کرنے والوں کو گرفتار نہیں کیا جائے گا۔
یہ اسمبلی بلوچستان کے لوگوں کی ہے اور اس ایوان میں بیٹھے ہوئے ہم سب ان کے نمائندے ہیں۔صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ احتجاجی ریلی میں 60مرد اورچھ خواتین کو گرفتار کیا گیا ہے انہیں جلد رہا کردیا جائے گا۔ بی این پی کے میر اکبر مینگل نے این ایف سی سے متعلق بلوچستان ہائیکورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ عدالت عالیہ کا یہ فیصلہ صوبے کے عوام کی امنگوں کے عین مطابق ہے۔سپیکر میر عبدالقدوس بزنجو نے اراکین اسمبلی کو قواعد کی پابندی کی تاکید کرتے ہوئے کہا کہ اکثر اراکین ایوان میں بلا اجازت آتے جاتے ہیں۔
ایسا لگ رہا ہے کہ ہم اسمبلی کے ایوان میں نہیں بلکہ میزان چوک پر گھوم پھررہے ہیں۔اراکین اسمبلی آنے جانے کے لئے اجازت لینے کے پابند ہیں۔جمعیت علماء اسلام کے مکھی شام لعل نے بجٹ میں مخصوص نشستوں پر منتخب اراکین کو نظر اندازکئے جانے کے عمل کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس ایوان میں ہماری بات سننے والا کوئی نہیں بجٹ میں مخصوص نشستوں پر آنے والے اراکین کو نظر انداز کیا گیا ہے قائد ایوان، سپیکر، ڈپٹی سپیکر اور صدرمملکت اور سینیٹرز کے انتخاب کے موقع پر جب ووٹ کی ضرورت پڑتی ہے تب تو مخصوص نشستیں سب کو یاد آجاتی ہیں۔
لیکن جب فنڈز کی بات آتی ہے تو ہمیں تیسرے نمبر پر رکھا جاتاہے ہم بھی عوام کے نمائندے ہیں انہوں نے اس معاملے پر ایوان سے احتجاجاً واک آؤٹ کیا جس کے بعد اپوزیشن کے دیگرا راکین بھی ان کے ساتھ یکجہتی کے لئے واک آؤٹ کرگئے۔بعدازاں حکومتی اراکین کی یقین دہانی کے بعد اپوزیشن اراکین واپس ایوان میں آئے اس موقع پر بی این پی کی شکیلہ نوید دہوار نے بھی فنڈز کی غیر منصفاقہ تقسیم کا معاملہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ صرف اقلیتی اراکین ہی نہیں بلکہ خواتین اراکین کو بھی امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔
اس ایوان میں میں شوہر کے ہاتھوں قتل ہونے والی عارفہ بی بی کا رونا روؤں، آن لائن کلاسز کے اجراء کے خلاف سراپا احتجاج بیٹیوں کی گرفتاریوں کی بات کروں، ڈھنک میں قتل ہونے والی ملک ناز کی بات کروں یا تربت میں قتل ہونے والی کلثوم کی بات کروں یہاں توہماری بات نہیں سنی جاتی برمش کو انصاف دلانے کی بات کہاں کروں ہم کس منہ سے متاثرہ خاندانوں کا سامنا کریں گے؟ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی خواتین تعلیمی ادارے نہ ہونے سے حصول علم سے محروم ہیں حکومت نے ایئر ایمبولینس کے لئے تو دو ارب روپے مختص کئے ہیں۔
مگر بی ایچ یوز میں بنیادی سہولیات ناپید ہیں بہتر ہوتا کہ حکومت ایئر ایمبولینس کے لئے رقم مختص کرنے کی بجائے ہر ضلع کو جدید سہولیات سے آراستہ چار سے پانچ ایمبولینس فراہم کرتی۔انہوں نے کہا کہ ہم اپنی پارٹیوں اور عوام کا اعتماد حاصل کرکے آئے ہیں کسی کا احسان لے کر نہیں آئے سیاسی جدوجہد کے ذریعے آج اس مقام تک پہنچے ہیں ہم نے اس سرزمین کے لئے قربانیاں دی ہیں۔الیکشن کمیشن نے ہمیں بحیثیت نمائندہ نوٹیفائی کیا ہے بعدازاں انہوں نے فنڈز کی غیر منصفانہ تقسیم کے خلاف سپیکرڈائس کے آگے دھرنا دے دیا اورفرش پر بیٹھ کر احتجاج ریکارڈ کرانے لگیں۔
جس میں بی این پی اورجمعیت علماء اسلام کی خواتین اور اقلیتی اراکین اسمبلی نے بھی آکر شرکت کی اور ان کے ساتھ احتجاج میں حصہ لیا بعدازاں سپیکر کی ہدایت پر صوبائی وزراء میر ظہور بلیدی،اسد بلوچ، عبدالخالق ہزارہ، اصغرخان، دنیش کمار اور بشریٰ رند نے احتجاج پر بیٹھی خواتین اراکین اور اقلیتی اراکین کے ساتھ بات چیت کی اور انہیں تحفظات کے خاتمے کی یقین دہانی کرائی۔
جس پراپوزیشن اراکین نے اپنا احتجاج ختم کیا اور ایوان کی کارروائی کا حصہ بن گئے۔قبل ازیں سردار عبدالرحمان کھیتران نے ایوان کو بتایا کہ اپوزیشن کے ساتھ ہونے مذکرات کے لئے جو کمیٹی بنائی گئی اس کا میں سربراہ تھا ہمارے اپوزیشن اراکین سے مذاکرات ہوئے اور بہت سے معاملات طے پاگئے ہیں خواتین و اقلیتی اراکین اسمبلی کو یقین دلاتے ہیں کہ کسی کے ساتھ بھی زیادتی نہیں ہوگی۔