قومی سیاست میں بڑی تبدیلیوں کے امکانات پیدا ہونے کے آثار دکھائی دے رہے ہیں پہلے تو اس حوالے سے قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں مگر گزشتہ روز کابینہ اجلاس اور فواد چوہدری کے انٹرویو کے بعد بہت سے معاملات کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق کابینہ اجلاس کے دوران فیصل واؤڈا نے دو اہم ارکان کو شدید تنقید کو نشانہ بناتے ہوئے کہاکہ وزیراعظم کی کرسی کیلئے سازشیں رچائی جارہی ہیں جن میں یہ دونوں شخصیات پس پشت گیم کررہے ہیں جبکہ فیصل واؤڈا کے اس تلخ لہجے کے باوجود وزیراعظم عمران خان نے انہیں خاموش نہیں کرایا۔
بلکہ وہ مسلسل اپنے غصے کا اظہار کرتے رہے۔دوسری جانب وفاقی وزیر فواد چوہدری کے حالیہ انٹرویو نے تہلکہ مچادیا ہے جس پر انہوں نے اپنی ہی حکومت کی ناکامی کے حوالے سے بات کی جس پر ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی جس مقصد کیلئے حکومت میں آئی تھی اس میں کامیابی نہیں ملی ہے، پارٹی کے اندر شدیدترین اختلافات ہیں جس کی وجہ سے پارٹی کے معاملات بہتر انداز میں نہیں چل رہے اور انہوں نے واضح لفظوں میں کہاکہ جہانگیر ترین اور اسد عمر کے درمیان پارٹی کے اندرزیادہ اختلافات تھے۔
جب اسد عمر وزیر خزانہ کے منصب پر فائزتھے تو جہانگیرترین نے انہیں اپنے اثر ونفوذ کو استعمال کرتے ہوئے عہدے سے ہٹایا جس کے بعد اسد عمر دوبارہ پارٹی میں طاقت میں آئے تو انہوں نے جہانگیر ترین کو نہ صرف پارٹی کے اہم معاملات سے دور رکھا بلکہ دوقدم آگے بڑھ کرانہیں پارٹی سے ہی نکال دیا۔ اسی طرح چینی بحران میں نام کا سرفہرست آنا بھی اسی سلسلہ کی کڑی بتائی جارہی ہے جس کے بعد جہانگیر ترین لندن چلے گئے۔ فواد چوہدری کے مطابق پارٹی کی اہم قیادت کے درمیان جھگڑے نے نہ صرف پارٹی کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا بلکہ پوری سیاسی کلاس اس سے آؤٹ ہوگئی۔
اور ان کی جگہ بیورو کریٹس نے لے لی۔ فواد چوہدری نے اپنے انٹرویو میں کہاکہ وزیراعظم کو منتخب اس لئے کیا گیا تھا کہ وہ ملک میں سیاسی اصلاحات لاسکیں تاکہ نظام میں بہتری لائی جاسکے مگر اس میں جماعت کی اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے کامیابی حاصل نہیں کرسکے۔ فواد چوہدری نے وزیراعظم عمران خان کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ وزیراعظم عمران خان نے تمام وزراء کو پانچ سے چھ ماہ کا وقت دیا ہے کہ اگر کارکردگی بہتر نہیں ہوئی تو وقت ہاتھ سے نکل جائے گا،فواد چوہدری نے یہ بھی کہاکہ اب حکومت اس لئے چل رہی ہے کہ تمام ادارے تعاون کررہے ہیں۔
کیونکہ دوسراکوئی سیاسی آپشن اس وقت موجود نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وفاق اور صوبائی حکومت کا اگر جائزہ لیاجائے تو اندازہ ہوگا کہ کیسی لیڈر شپ موجود ہے جو سویلین بالادستی کو برقرار رکھ سکے۔ فواد چوہدری نے وزیراعلیٰ اور چیف سیکریٹری کے عہدوں کو برائی کی جڑ قرار دیا۔ بہرحال فواد چوہدری کے انٹرویو کو بعض مبصرین غیر معمولی قرار دے رہے ہیں کہ حکومت کیلئے آئندہ چند ماہ کے دوران مزید مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں اب اسے پی ٹی آئی کی قیادت کیسے سنبھال پائے گی یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا مگر بعض حلقوں کے مطابق شہباز شریف کی لندن سے واپسی کو وفاق میں تبدیلی سے نتھی کیاجاسکتا ہے۔
عین ممکن ہے کہ اچانک بڑی تبدیلی رونما ہوجائے۔ بعض مبصرین سا بق صدرآصف علی زرداری کے گزشتہ روز کے بیان کو بھی موجودہ بحران سے جوڑ رہے ہیں کہ پیپلزپارٹی بھی کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتی۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت پر پہلے اپوزیشن کی جانب سے تنقید کی جاتی تھی مگراب اس کے اپنے ہی وزراء پھٹ پڑے ہیں تو اس سے یہی نتیجہ اخذ کیاجاسکتا ہے کہ بہت کچھ تبدیل ہونے جارہا ہے۔