|

وقتِ اشاعت :   June 26 – 2020

بلوچستان کو دیوار سے لگانے کی پالیسیوں کا تسلسل ایک طویل تاریخ رکھتی ہے جمہوریت کے چیمپئن بننے والی بڑی سیاسی جماعتوں کا رویہ بھی بلوچستان کے ساتھ ایک کالونی کی طرح رہا ہے ان کے دعوے اور وعدے ہمدردیاں محض دکھاوا ہی ثابت ہوئے ہیں۔ جب اپوزیشن میں یہ جماعتیں ہوتی ہیں تو بلوچستان کی محرومیوں، زیادتیوں کو ایسے جذباتی انداز میں بیان کرتی ہیں کہ جیسے ہی ان کے ہاتھ حکومت آئے گی تو بلوچستان کو دنیا کاسب سے امیر ترین خطہ بناکر رکھ دینگے، بلوچستان کے معدنی وسائل کا جو نقشہ اپنی تقریر وں میں پیش کرتے ہیں۔

دیگر صوبوں کے عوام بھی دنگ رہ جاتے ہیں کہ ملک کا ایک حصہ ایسا بھی ہے جہاں اتنے قدرتی وسائل اور ذخائر موجود ہیں کہ پاکستان کا معاشی نقشہ بدل کر رہ جائے گا اور ملک کے عوام کو بیرون ممالک روزگار کیلئے جانا نہیں پڑے گا بلکہ یہی پر ان کی زندگی آسودگی کے ساتھ گزرے گی۔شاید انہیں یہ معلوم نہیں کہ اس بدقسمت صوبے کے عوام ان تمام وسائل کے باوجود زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں جہاں پر تعلیم اورصحت تک کے بہترین ادارے موجود نہیں اور مجبوراََ انہیں دیگر شہروں میں جاکر علاج کرانا پڑتا ہے۔ تعلیم کے حصول کیلئے بھی انہیں اسلام آباد، لاہورر اور کراچی کا رخ کرنا پڑتا ہے۔

اور تعلیمی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ان کے نصیب میں روزگار تک نہیں ہوتا،ان کے حصہ کی نوکریاں بھی جعلی ڈومیسائل کے ذریعے دیگر صوبوں کے لوگ لے اُڑتے ہیں چونکہ یہاں پر جو آفیسران تعینات ہوتے ہیں وہ اپنے پورے خاندان کے لوکل،ڈومیسائل بناکر ان کیلئے بھی پیشگی بلوچستان میں روزگار اور آفیسران بنانے کیلئے راستہ ہموار کرتے ہیں،آج بھی بلوچستان میں بیروزگاری کی شرح ملک کے دیگر صوبوں کی نسبت سب سے زیادہ ہے جن کے حقوق افسر شاہی سلب کررہے ہیں۔ بہرحال بلوچستان کے مسائل اتنے زیادہ ہیں کہ انہیں ایک کالم میں بیان نہیں کیاجاسکتا۔

وفاقی حکومتوں کے رویوں کا اندازہ بلوچستان کے تعلیمی اداروں کے ساتھ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ کس طرح سے وہ یہاں کے نوجوانوں کیلئے تعلیم کے حصول کو مشکل سے مشکل تر بنارہے ہیں جس کی واضح مثال بولان میڈیکل کالج ہے جب بی ایم سی کو یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا تو طالبعلموں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کہ میڈیکل یونیورسٹی بننے کے بعد کسی بھی اسٹوڈنٹ کو اسلام آباداور کراچی جانا نہیں پڑے گا بلکہ اپنے صوبے کے اندر ہی وہ میڈیکل کی تعلیم آسانی سے حاصل کرسکیں گے مگر جس منصوبہ بندی کے تحت بولان میڈیکل کالج کے ایکٹ کو بنایا گیا۔

تو اس کے بعد اس کے نقصانات کا اندیشہ ہونے لگا کہ طالبعلموں سمیت ملازمین کی مشکلات کس حد تک بڑھ جائینگی،ایکٹ کے تحت وائس چانسلر کو داخلہ سے لیکر ہاسٹل تک کے معاملات چلانے کے اختیارات دیئے گئے کہ وہ اس میں براہ راست مداخلت کرسکیں،تمام تر اختیارات کا محور وی سی کو بنا دیا گیا، میڈیکل کی سیٹ سے کس کو نوازنا ہے یہ فیصلہ بھی وی سی صاحب کو ہی کرنا ہے۔ بولان میڈیکل کالج کے اسٹوڈنٹس سمیت ملازمین اس عمل کے خلاف شدید سراپااحتجاج ہیں کہ ایکٹ میں ترمیم کی جائے مگر بدقسمتی سے کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی اور آئے روز خواتین طلبہ خاص کر سڑکوں پر سراپا احتجاج دکھائی دیتی ہیں۔

بجائے اس مسئلہ کو آئینی طریقے سے حل کیاجائے مگر بدقسمتی سے یہاں کی بچیوں کو اپنے حقوق قانونی طریقے سے حاصل کرنے کے لیے احتجاج کے دوران گرفتار کیاجاتا ہے اور بعد میں اس عمل پر معافی مانگی جاتی ہے مگر اصل مسئلہ اپنی جگہ موجود ہے،اگر بلوچستان کے ساتھ اتنی ہمدردی ہے تو جو جائز مطالبات ہیں انہیں تسلیم کیاجائے بعد میں یہاں کے وسائل کے ذریعے دودھ اور شہدکی نہریں اور معاشی انقلاب کے دعوے کئے جائیں۔ المیہ یہ ہے کہ صوبائی حکومت 18ویں ترمیم کے بعد اپنے اختیارات استعمال کرنے سے قاصر دکھائی دیتی ہے۔

نہ جانے کس مصلحت پسندی کاشکار ہے کہ اپنے ہی صوبے کے غریب بچوں اورملازمین کے جائز مسائل کو حل کرنے سے قاصر دکھائی دے رہی ہے،وفاقی حکومت کے سامنے بھی بی ایم سی بحالی تحریک کا مطالبہ یہی ہے کہ جو ایکٹ بنایا گیا ہے اس میں ترمیم کرتے ہوئے ان کی مشکلات کو کم کیاجائے۔