|

وقتِ اشاعت :   June 27 – 2020

ہائر ایجوکیشن کمیشن کی آن لائن کلاسز کے فیصلے کے خلاف اس وقت سب سے زیادہ احتجاج بلوچستان میں دیکھنے کو مل رہا ہے طلباء وطالبات سڑکوں پر نکل آئے ہیں،بلوچستان کی بیشتر طلبا تنظیمیں آن لائن کلاسز کی مخالفت کررہے ہیں اس حوالے سے مشترکہ مظاہروں کے دوران طلبا تنظیموں کا کہنا ہے کہ وہ بنیادی طور پر آن لائن کلاسز کے خلاف نہیں لیکن جن علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت نہیں یا اس کی اسپیڈ نہ ہونے کے برابر ہے ان علاقوں کے طلبا کیا کریں۔

اسٹوڈنٹس نے مطالبہ کیا کہ آن لائن کلاسز شروع کرنے سے پہلے جن علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت نہیں،پہلے وہاں اس کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے اور جن علاقوں میں سکیورٹی وجوہات کی وجہ سے انٹر نیٹ بند ہے اس کو بحال کیا جائے۔کوئٹہ اور دیگر شہروں میں مظاہروں کے بعد مختلف یونیورسٹیز اور دیگر بڑے تعلیمی اداروں کے طلباء نے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ بھی لگائے ہیں۔طلباء کاکہناہے کہ بلوچستان کے طول و عرض میں وہ ایک جائز مسئلے کے حوالے سے احتجاج کر رہے ہیں۔

اگر حکومت اور ایچ ای سی انٹرنیٹ کے مسئلے کو حل نہیں کر سکتے تو کم از کم یونیورسٹیوں اور دیگر بڑے تعلیمی اداروں کو کھول دیں،جب بازاروں کو کھول دیا گیا ہے اور ٹرانسپورٹ چل رہی ہے تو اس کے بعد بڑے تعلیمی اداروں کو بند رکھنے کا کوئی ٹھوس جواز نہیں۔انہوں نے کہا کہ ایس او پیز کے تحت بڑے تعلیمی اداروں کو کھولا جائے تاکہ جن طلبا کو آن لائن کلاسز لینے میں دشواری ہے وہ ان تعلیمی اداروں میں یا ان کے ہاسٹلز میں اپنی کلاسیں لے سکیں۔

طلباء تنظیموں کی طرح بلوچستان میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھی یہ مطالبہ سامنے آ رہا ہے کہ آن لائن کلاسز کے حوالے سے طلباء کے مسائل حل کیے جائیں۔اسٹوڈنٹس کے احتجاج کے دوران ان کی گرفتاری بھی عمل میں لائی گئی جس کے خلاف سیاسی جماعتوں کی جانب سے شدید ردعمل دیکھنے کو ملا اور اس عمل کی مذمت کی گئی اور طلباء کے ساتھ اظہاریکجہتی کی گئی۔ دوسری جانب وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے گزشتہ روز طلباء وفد سے ملاقات کے دوران یقین دہانی کرائی کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن سے تمام مسائل پر بات چیت کی جائے گی۔

اور طلباء کے مسائل کو حل کرنا ہماری ترجیح ہوگی۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہائرایجوکیشن کمیشن بلوچستان کے زمینی حقائق سے واقف نہیں کہ رقبہ کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ بلوچستان میں ٹیکنالوجی کی سہولیات موجود نہیں،یہاں آن لائن کلاسز کا تصور ہی نہیں کیاجاسکتا،انٹرنیٹ تو کجا یہاں پر بنیادی سہولیات آج تک لوگوں کو میسر نہیں۔ بلوچستان کے بیشتر طلباء کوئٹہ، لاہور، کراچی اور اسلام آباد تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں اور اس سے سبھی بخوبی آگاہ ہیں کہ بلوچستان میں تعلیمی نظام کیسا ہے۔

یہ سراسر زیادتی ہے کہ بلوچستان کے زمینی حقائق اور مسائل سے آگاہی ہونے کے باوجود آن لائن کلاسز کافیصلہ کیاجائے لہٰذا طلباء پر دباؤ بڑھانے کی بجائے آن لائن کلاسز کے فیصلے کو واپس لیاجائے جبکہ وفاقی حکومت خاص کر اس جانب توجہ دیتے ہوئے بلوچستان میں انٹرنیٹ کی سہولت سمیت بجلی کی فراہمی کے حوالے سے اقدامات اٹھائے وگرنہ یہ طلباء کیلئے مشکلات کا باعث بنے گا اور یہ ممکن نہیں کہ بلوچستان کے دور دراز اضلاع سے تعلق رکھنے والے طلباء وطالبات آن لائن کلاسز لے سکیں۔