|

وقتِ اشاعت :   June 27 – 2020

کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی کے آزاد رکن، سابق وزیراعلیٰ و چیف آف ساران نواب محمد اسلم خان رئیسانی نے کہا ہے کہ مکھی اور مکڑی کے لئے تو کمیشن بنایا جاتا ہے لیکن درینگڑھ واقعے کی تحقیقات کے لئے اب تک کمیشن نہیں بنایاگیا، ایک ہوتا ہے بے کار ایک ہوتا ہے بہترین بے کار بجٹ، اگلے مالی سال کا صوبائی بجٹ بہترین بے کار بجٹ ہے، بی این پی نے حکومتی اتحاد سے علیحدگی اختیار کرکے اچھا کیا۔

وہ جمعہ کے روز بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کررہے تھے۔ نوا ب اسلم خان رئیسانی نے کہا کہ 1988ء میں پہلی دفعہ جب میں بلوچستان اسمبلی کا رکن منتخب ہو کر آیا تو اس وقت قائد ایوان نواب اکبرخان بگٹی تھے اس دور میں حزب اختلاف کے حلقوں میں مداخلت نہیں ہوتی تھی انہوں نے کبھی بلوچستان نیشنل الائنس کے اراکین کو اپوزیشن سے زیادہ فنڈز نہیں دیئے مگراب موجودہ دور حکومت میں ترقیاتی عمل میں اپوزیشن کے حلقوں کو نظر انداز بھی کیا جارہا ہے۔

اور ان کے حلقوں میں مداخلت بھی ہورہی ہے انہوں نے کہا کہ احتجاج پر بیٹھے ہوئے اپوزیشن اراکین کے پاس جب حکومتی کمیٹی کے اراکین مذاکرات کے لئے آئے تو ہم نے ان کے سامنے دو باتیں رکھیں کہ ہمارے حلقوں میں بے جا مداخلت بند اور پی ایس ڈی پی میں اپوزیشن اراکین کو حکومتی اراکین کے برابر فنڈز دیئے جائیں مگر ہماری یہ باتیں جام کمال کے پلے نہیں پڑیں۔

گزشتہ اجلاس میں ہم نے ان سے درخواست کی تھی کہ وہ ایوان میں اپنی شرکت کو یقینی بنائیں لیکن ان کی سنجدگی کا عالم یہ ہے کہ وہ آج بھی ایوان میں موجود نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک ہوتا ہے بے کار بجٹ بلوچستان کے اگلے مالی سال کا بجٹ ”بہترین بے کار“ بجٹ ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ عوام سے مینڈیٹ لے کر آنے والے اراکین اسمبلی سے ترقیاتی عمل کے لئے تجاویز لی جاتیں اور عوامی نمائندے جو تجاویز دیتے ان پر عمل ہوتا لیکن ایسا نہیں ہوا اور اپوزیشن کے حلقوں میں ہارے ہوئے لوگوں کو زیادہ فنڈز دیئے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کے حلقوں کیا بلوچستان عوامی پارٹی نے تومیرے خاندان میں بھی مداخلت کرتے ہوئے میرے بھائی کو انتخابات میں میرے خلاف کھڑا کیا اور سٹیبلشمنٹ نے اسے میرے گھر کے سامنے الیکشن مہم کے لئے سرکاری عمارت بطور دفتر الاٹ کرکے ہم بھائیوں کو آپس میں لڑانے کی سازش کی گئی تاہم اللہ کو کچھ اور منظور تھا اور میرا بھائی 400افراد کے ساتھ شہید ہوگئے۔

سابق وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ مکھی اور مکڑی کے لئے تو کمیشن بنایا جاتا ہے لیکن باپ پارٹی نے آج تک درینگڑھ واقعے کی تحقیقات کے لئے کوئی جوڈیشل انکوائری نہیں کرائی انہوں نے کہا کہ مجھے کہا گیا کہ دھماکے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ فیڈریشن کی حمایت کی ہے یہ ایک کثیر القومی فیڈریشن ہے 70سالوں سے کتنے آئین بنے آج تک ان پر کوئی عملدر نہیں ہوا۔

آج این ایف سی ایوارڈ اوراٹھارہویں آئینی ترمیم کو رول بیک کرنے کی سازشیں ہورہی ہیں جو آئین کی خلاف ورزی ہے فیڈریشن کو چلانے کے لئے یہاں بسنے والے لوگوں کو اعتماد میں لیا جائے غداری کے ٹھپے لگانے بند کئے جائیں قومی اکائیوں کو ان کے حقوق دینے سے فیڈریشن مضبوط ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ 1987ء میں ہم پر جو حملہ ہوا وہ ٹارگٹ کلنگ تھی جس میں گھات لگا کر ہم پر حملہ کیا گیا۔


انہوں نے کہا کہ ہمارے گھر کو بلڈوز کیاگیا اورآج بھی جب میں اپنے علاقے کانک جاتا ہوں تو وہاں موجود چیک پوسٹ پر میری شناخت پوچھی جاتی ہے۔ان حرکتوں سے فطری بات ہے کہ لوگ ناراض ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ طاقت کے ذریعے لوگوں کو دبایا نہیں جاسکتا۔ سوویت یونین اور امریکہ کی مثالیں ہمارے سامنے جو کئی گناہ زیادہ طاقت رکھتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ رئیسانی اور بگٹی کے درمیان پیش آنے والے واقعے کے بعد جب ہمارے اور بگٹی قبیلے کے لوگ پیشیوں پر جاتے تھے تو واپسی پر تین چار لوگوں کی لاشیں آتی تھیں اس دوران مجھے نواب اکبر خان بگٹی کا پیغام ملا کہ اور ہم نے فیصلہ کیا کہ آج کے بعد ہمارے لوگ پیشیوں پر نہیں جائیں گے تو ہمارے لوگوں کے قتل کے واقعات بند ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمیں مل کرٹارگٹ کلرز کا محاسبہ کرنا ہے۔ اگر ان لوگوں کو آزاد چھوڑا گیا تو کل کسی کی بھی عزت محفوظ نہیں رہے گی صوبے میں بارہ تیرہ سالوں سے لوگ لاپتہ ہورہے ہیں بلوچستان کے اندرونی سیکورٹی پر ساٹھ ستر ارب روپے خرچ کئے جارہے ہیں۔

جس میں مسلسل اضافہ بھی ہورہا ہے آئندہ چند سالوں میں یہ رقم سوارب تک پہنچ جائے گی جس کا صوبہ متحمل نہیں ہوسکتا اس کے لئے بھی سوچنے کی ضرورت ہے انہوں نے کہا کہ23مارچ1940ء میں جب آل انڈیا مسلم لیگ کنونشن میں منظور ہونے والی قرار داد اور محمد علی جناح اور خان آف قلات کے مابین ہونے والے معاہدے کو آئین کا حصہ بنایا جائے انہوں نے کہا کہ1973ء کا آئین حرف آخر نہیں ملک کو ایک نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے، کرنسی، دفاع اور خارجہ امور وفاق اپنے پاس رکھتے ہوئے دیگر تمام اختیارات صوبوں کو منتقل کرکے قومی اکائیوں کو مضبوط کرے۔

انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے دور حکومت میں پرویز مشرف کے ختم کئے گئے قاضی عدالتوں اور لیویز نظام کو دوبارہ بحال کرکے پرویز مشرف کی باقیات کو ختم کیا پرویز مشرف ایک غاصب حکمران تھا میرے دور وزارت اعلیٰ میں وہ جب کوئٹہ آرہے تھے میں نے انہیں منع کیا لیکن میرے منع کرنے کے باوجود وہ بلوچستان آیا تو میں نے اسے ریسیو نہیں کیا ہاں البتہ جمہوریت کی بات کرنے والی پیپلزپارٹی اورکابینہ اراکین نے انہیں ریسیو بھی کیا اور ان کے ساتھ ڈنر بھی کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے دورحکومت میں سرمائی دارالحکومت قرار دیا کیونکہ مجھے خدشہ تھا کہ گوادر کو ہم سے چھین لیا جائے گا۔

تاہم میرے بعد آنے والی حکومتوں نے ایک دن بھی گوادر میں ٹھہرنا گوارا نہیں کیا ہم نے گوادر کی اراضیوں سے قبضہ چھڑایا ہم نے ہمیشہ فیڈریشن کی مضبوطی کی بات کی اور ہم چاہتے ہیں کہ بلوچستان مضبوط ہو۔ انہوں نے کہا کہ کوئٹہ میں پانی کی قلت ہے جبکہ حکومت نے پچاس کروڑ روپے ٹف ٹائل پرلگادیئے بلوچستان کو اس وقت جن مسائل کا سامنا ہے ان کا خاتمہ صرف جام کمال یا کسی ایک فرد کے بس کی بات نہیں اس کے لئے مشترکہ جدوجہد کی ضرورت ہے اور اس کے لئے سیاسی قیادت، مفکر، دانشوروں اور تمام مکاتب فکر کو متحد ہو کر مشترکہ جدوجہد کرنی ہوگی۔

انہوں نے بی این پی کے حکومتی اتحاد سے علیحدگی کے فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا کہ بی این پی اور تحریک انصاف کے مابین ہونے والے چھ نکاتی معاہدے پر حکومت کی قائم کردہ مذاکراتی کمیٹی کے ممبران اسد عمر اور پرویز خٹک آخری روز تک بی این پی قیادت سے جھوٹ بولتے رہے۔انہوں نے کہا کہ بی این پی نے اچھا کیا کہ متنازعہ بننے کی بجائے حکومتی اتحاد سے علیحدگی اختیار کی۔