بلوچستان میں چند ایک سیکٹر ایسے ہیں جہاں سے صوبائی حکومت کو اچھا خاصا منافع ملتا ہے جس میں خاص کر مائننگ کاشعبہ شامل ہے بدقسمتی سے اس شعبہ سے وابستہ ملازمین بڑے حادثات کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں کیونکہ سیفٹی کے کوئی انتظامات نہیں ہوتے خاص کر بولان میں بڑے پیمانے پر کول مائننگ کاکام ہوتا ہے مگر پورے ضلع میں ایک بہترین اسپتال تک موجود نہیں کہ اگر خدانخواستہ کوئی حادثہ رونما ہوجائے تو متاثرہ افراد کو فوری طور پر طبی امداد اور بہترین سہولیات کے ذریعے ان کی قیمتی زندگیوں کو بچایا جاسکے،شاید ہی ان کول مائنز کے علاقوں میں ہمارے وزراء نے کبھی دورہ کیا۔
ہو اور وہاں پر ملازمین کی حالت زار کے حوالے سے معلومات لی ہوں تاکہ ان کو ملنے والی اجرت اور سہولیات کے حوالے سے پالیسی مرتب کی جاسکے، دعوؤں کی حد تک ہی ملازمین کے ساتھ ہمدردیاں جتائی جاتی ہیں مگر عملاََ ان کیلئے کوئی ٹھوس اقدامات دیکھنے کونہیں ملتے شاید ہی کوئی ایسا سال گزرا ہو کہ کان کن بڑے حادثات کے شکار نہ ہوں بلکہ بڑے پیمانے پر مزدوراپنی زندگیوں سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں جس کی ذمہ داری کول مائنز مالکان،ٹھیکیدار سمیت حکام پر بھی عائد ہوتی ہے کیونکہ کسی بھی شعبہ کو چلانے کیلئے سب سے پہلے اس کیلئے بہترین قانون سازی کرتے ہوئے اس پر عملدرآمد کو یقینی بنایاجاتا ہے۔
مگر ہمارے ہاں کاغذی کاروائیوں تک معاملات کو رکھاجاتا ہے عملدرآمد کی نوبت کبھی نہیں آتی۔ دوسرا اہم مسئلہ کان کنی سے جڑے بیشتر ملازمین افغان باشندے ہوتے ہیں جو معیشت زدہ ہونے کی وجہ سے مجبوراََکم اجرت پر کام کرتے ہیں حالانکہ اس حوالے سے بھی دنیا بھر میں قوانین موجود ہیں ہمارے ہاں انہیں بھی نظرانداز کیاجاتا ہے کہ مہاجرین کی رجسٹریشن کو یقینی بنانے کے ساتھ اس کے بعد انہیں کام کرنے کی اجازت دی جائے اور اسی طرح سے سہولیات بھی فراہم کی جائیں مگر المیہ یہ ہے کہ تمام قوانین کو پس پشت ڈال کر صرف آمدنی اور محاصل کو دیکھا جاتا ہے۔
جبکہ جن علاقوں میں مائننگ ہوتی ہے وہاں پر کوئی بنیادی سہولیات میسر نہیں۔ باقی دنیا میں جس علاقے سے زیادہ آمدن حکومت کو ملتی ہے اتنی ہی سہولیات وہاں کے لوگوں کو فراہم کی جاتی ہیں مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں صورتحال مختلف ہے۔ گزشتہ روز وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کے ساتھ کول مائنز اونرز ایسوسی ایشن کے وفد نے ملاقات کی جس میں معدنیات کے شعبہ کی ترقی اور کورنا وائرس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے صنعت پر مرتب ہونے والے اثرات پر گفت وشنید ہوئی اور مائننگ سیکٹر کی ترقی کے لیے حکومتی اصلاحات و اقدامات،منرل پالیسی اور آئندہ مالی سال کے بجٹ میں معدنی پیداوار میں اضافے کے لیے ترقیاتی منصوبوں کی شمولیت کوئلہ اور دیگر معدنیات پر مختلف مد میں رائلٹی فیسوں اور ٹیکسوں میں اضافے کو 31 دسمبر 2020 تک موخر کرنے پربات چیت ہوئی۔
وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان اس وقت صوبے کے چیف ایگزیکٹیو ہیں ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ جس طرح انہوں نے ماضی میں اس شعبہ پر سرمایہ کاری کو نظراندازکرنے پر حکومتوں کو تنقید کا نشانہ بنایا تو ان کو چاہئے کہ ماضی کے ملازمین کش پالیسیوں کا ذکر بھی کول مائنز کے اونرز کے ساتھ کرتے کہ مزدور کسی بھی شعبے میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہوتے ہیں جن کو مکمل سہولیات سمیت بہترین اجرت بھی دی جائے تاکہ مزدور وں کے حالات میں تبدیلی آسکے۔ امید ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان ماضی کی روایات سے ہٹ کر مزدوروں سمیت محاصل دینے والے اضلاع کی ترقی کے حوالے سے بھی اقدامات اٹھائینگے۔