معاشرے میں منصفانہ عمل کا براہ راست تعلق حکمرانی سے ہے، ترقی یافتہ اور مہذب ممالک آج ہم سے بہت آگے جاچکے ہیں جس کی بڑی وجہ وہاں قانون کی بالادستی ہے۔ اندرون اوربیرون خانہ اس طرح کی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں جس سے ریاست کو مستحکم بنانا مقصود ہوتاہے یقینا اس میں اہم اپنے ملک کو خوشحال کرنا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں پارلیمنٹ کی بالادستی کو کمزور خود سیاسی جماعتوں نے اپنی حکمرانی کے ذریعے کیا،جہاں پر اپنے من پسند افراد کو اہم عہدوں اور مناصب پر بٹھایاجاتا ہے جن کی اہلیت اور قابلیت کچھ نہیں ہوتی تو کس طرح سے یہ توقع اور امید کی جاسکتی ہے کہ ملکی نظام بہتر طریقے سے چل سکے گا۔
وزراء، مشیر،بیوروکریسی تک کیلئے اہلیت نہیں دیکھی جاتی تو ایسے حالات میں بہتر نتائج کی امید رکھنا احمقانہ بات ہوگی۔ ماضی میں جو کچھ ہوا اسی کوبار بار دہرایا گیا، پھر وہی غلطیاں کرتے ہوئے پورے نظام کا حشر نشر کردیا گیا۔ جس جماعت کی حکومت بنتی ہے وہ ماضی کی بجائے موجودہ حالات اور چیلنجز کو مدِ نظر رکھتے ہوئے پالیسیاں مرتب کرے، بجائے ماضی کو کوسنے کے جس سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔گزشتہ روز قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اب اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج پر حملہ بھارت کی سازش تھی، اسٹاک ایکسچینج حملے میں شہید ہونے والوں کوخراج تحسین پیش کرتا ہوں۔
دہشت گرد پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اس سے پہلے بھی ہماری ایجنسیز نے چار تخریب کاری کے منصوبے ناکام بنادئیے تھے، ان سب کی منصوبہ بندی بھارت میں کی گئی۔وزیراعظم نے سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں بڑی تبدیلیاں لانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ پاورسیکٹر، پی آئی اے اوراسٹیل ملزمیں بڑی تبدیلیاں ہوں گی۔ اصلاحات کے بغیرآگے نہیں بڑھ سکتے۔ سیاسی بھرتیوں سے اداروں کو تباہ کیا گیا، ملک کو آگے لے جانے کیلئے اداروں میں بیٹھے ہوئے مافیاز کا خاتمہ ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ تمام مافیازکو قانون کی گرفت میں لائیں گے۔
نوازشریف اورزرداری کی شوگرملزکیوں ہیں؟ شوگرملز کالا دھن سفید کرنے کیلئے ہیں۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اپوزیشن کی باتوں کی پرواہ نہیں کرتا۔ خواجہ آصف سے انٹرویو میں پوچھا گیا کہ ن لیگ اورپی ٹی آئی میں کیا فرق ہے؟ خواجہ آصف نے کہا ہم لبرل ہیں،وہ مذہبی جماعتوں کیساتھ ہیں۔ بہرحال اب ملکی حالات کو بہتر بنانے کیلئے موجودہ حکومت نے ہی پالیسیاں بنانی ہیں،اندرون خانہ سیاسی معاملات کو سیاسی انداز میں حل کرنے پر سوچ بچار کیاجائے کہ کس طرح سے ملک کے اندر استحکام پیدا کرتے ہوئے ہم آہنگی کے ساتھ آگے بڑھا جائے۔
موجودہ حکومت جس تبدیلی کا نعرہ لے کر آئی تھی اب تک اس کے آثار دکھائی نہیں دے رہے بلکہ مزید بحرانات پیدا ہورہے ہیں۔ حالیہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے، ابھی چینی اور آٹا بحران پر عوام کاروائی کے منتظر تھے کہ پیٹرولیم مافیا کا مسئلہ سامنے آگیا۔ جب تک ملک میں سزاوجزا پر بلاتفریق عمل نہیں کیاجائے گا، مزید بحرانات پیدا ہوتے رہیں گے، قانون کی بالادستی کو جب تک یقینی نہیں بنایاجائے گا مسائل جوں کے توں رہینگے۔ دنیاکے ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں ہمارے ہاں روز دی جاتی ہیں مگر اسی طرح سے نظام کو عملی طور پر چلانے کیلئے کوئی پالیسی دکھائی نہیں دیتی،دعوؤں کو عملی جامہ پہنانے کے بعد ہی مثبت نتائج کی امید کی جاسکتی ہے اور یہ موجودہ حکومت نے ہی کرنا ہے عوام کی بھی خواہش یہی ہے کہ تمام کرپٹ مافیاز کو کٹہرے میں لایاجائے تاکہ احتسابی عمل شفاف طریقے سے چل سکے۔