تین ماہ میں عالمی ادارہئ صحت نے اپنے سابقہ اندازوں پر نظر ثانی کرتے ہوئے کہا ہے کہ کورونا وائرس وبا کی ’دوسری‘ بلکہ ’تیسری‘ وبا کا امکان ہے۔ آئی ایم ایف اور امریکا کہہ چکے ہیں کہ وبا کے باعث پیدا ہونے والا معاشی بحران 2022تک جاری رہے گا۔ آئے دن کاروبار اور صنعتوں کی بندش کے ساتھ بے روزگاری کے اعداد شمارمیں ہوش رُبا اضافہ ہورہا ہے۔
پاکستان میں وبا کا پھیلاؤ یک دم تیز ہوا اور اب مصدقہ کیسز کی تعداد 2لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے۔ ابتدا میں عوام گھروں پر رہنے اور ’سماجی فاصلہ‘ برقرار رکھنے پر آمادہ تھے لیکن پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کی غیر ذمے داری نے وبا سے متعلق ابہام اور شبہات کو ہوا دی اور اب اکثریت بے احتیاطی کے نتائج سے بے پروا ہوچکی ہے۔ نظم و ضبط اور قواعد کی پابندی کو عوام کی مرضی پر چھوڑ کر اسمارٹ یا کسی بھی قسم کا لاک ڈاؤن ایک لاحاصل مشق کے سوا کچھ نہیں۔ پوری طاقت کے ساتھ اس کے نفاذ کے لیے خصوصی اختیارات درکار ہیں۔ایک جانب عوام کو گھروں میں رہنے پر مجبور کیا جارہا ہے اور دوسری جانب ناقابل برداشت گرمی میں بجلی کی بندش نے زندگی عذاب بنا دی ہے۔ پانی کی قلت نے وبا ء سے بچاؤ کے لیے بار بار ہاتھ دھونے کی تاکید کو بے معنی کردیا ہے۔ جن حالات میں پٹرول کی قیمتیں بڑھائی گئیں اس سے عوامی غم و غصے کو ہوا ملی۔ دوسری جانب گندم کی فی ایکڑ پیداوار میں کمی آئی ہے، پہلے 27 میٹرک ٹن کا اندازہ تھا جب کہ پیداوار 25میٹرک ٹن ہوئی۔ اس فرق کو پورا کرنے کے لیے حکومت کو گندم کی درآمد کی اجازت دینا پڑی۔ حکومت کو آنے والے دنوں میں خوراک کی قلت کا سامنا بھی ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ کپاس، مکئی اور گنے کی پیداوار بھی کم ہوئی ہے۔
حال ہی میں پائلٹس اور ٹریفک کنٹرول ٹاؤر کی غفلت کے باعث پی آئی اے کے طیارے کا حادثہ پیش آیا جس میں 97جانیں گئیں۔ پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل کو بالخصوص پیپلز پارٹی (اور ن لیگ نے بھی) اپنے کارکنوں اور ان کے دوست رشتے داروں کو نوازنے کے لیے بے دریغ استعمال کیا۔ پالپا نے بھی پائلٹس کی مشتبہ اہلیت سے چشم پوشی کی جو اس معاملے کا خلاصہ ہے۔ چند لوگوں کا روزگار بچانے کے لیے لاکھوں زندگیاں خطرے میں کیوں ڈالی جائیں؟ پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل میں قومی سرمایہ جھونکنے کا سلسلہ بند کرنا ہوگا۔
ہم غیر ضروری اخراجات کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ قومی سرمایہ اور خصوصاً زر مبادلہ کب اور کہاں خرچ ہورہا ہے اس کی پوری نگرانی اور تحقیقات ضروری ہیں۔ جب جنوبی پاکستان میں 2021تک بجلی کی ضروریات کا اندازہ 4ہزار میگا واٹ لگایا گیا تھا تو اکتوبر 2019میں این ٹی ڈی سی نے گنجائش پیدا نہ کرنے کے باوجود کے الیکٹرک کو کام جاری رکھنے کی توثیق کیوں دی؟ کے الیکٹرک کو معمولی نرخوں پر گرڈ اسٹیشنوں پر آنے کے بجائے 900اور 700میگا واٹ کے مہنگے پلانٹس لگانے کی سہولت کاری کیوں کی گئی؟ حکومت میں کون اس کا ذمے دار ہے؟ وزارت خزانہ میں بیٹھے لوگ اندھے، گونگے اور بہرے نہیں۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ شیئر ہولڈرز سے ایک پیسہ نہیں مل رہا اور کے الیکٹرک پر بینکوں کے قرض کا بوجھ بڑھتا جارہا ہے۔ ہم اپنا زر مبادلہ یہ بوجھ اٹھانے میں کیوں صرف کررہے ہیں، ریاست یہ بوجھ کیوں اٹھا رہی ہے جب کہ کراچی کے شہری اضافی بلوں کا عذاب الگ جھیل رہے ہیں۔ این ٹی ڈی سی، وفاقی وزارت خزانہ اور وزارت توانائی نے اس معاملے میں کیا گٹھ جوڑ کررکھا ہے؟ ایک انتہائی ذمے دار شخصیت نے مجھے ایک دوست کی اس تجویز کی مخالفت سے روکا۔ قومی مفاد پر دوستی کو ترجیح دینا بہت بڑی قیمت ہے۔ ایک اور سوال یہ ہے کہ ایف بی آر نے اعلیٰ حکومتی افسران، فوجی افسران اور اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو 2019 میں 30ارب کی انکم ٹیکس میں چھوٹ اور رعایت کیوں دی؟ ریاست کے ساتھ بعض طبقوں کا اجارہ داری کا رشتہ قبول کرکے انہیں جواب دہی سے بالاتر کیوں رکھا جاتا ہے۔ (جاری ہے)
ایمرجنسی کا نفاذ ناگزیر کیوں؟ (1)
وقتِ اشاعت : July 4 – 2020