|

وقتِ اشاعت :   July 5 – 2020

نظام انصاف کا معاملہ یہ ہے یہاں دہشت گردوں کے ”حقوق“ کی بڑی فکر ہے۔ پشاور ہائیکورٹ نے کیوں سینکڑوں دہشت گردوں کو ’بے قصور‘ قرار دیا؟ اسی طرح ڈینیئل پرل کے قاتلوں کے بارے میں عدالتی فیصلے کو کیا کہیں گے؟دنیا کی کس تہذیب یافتہ معاشرے میں دہشت گردوں کو کھلا چھوڑنے کی اجازت دی جاسکتی ہے؟ ایسے فیصلوں سے ہمارے عدالتی نظام کی جگ ہنسائی ہوتی ہے۔ اگر قانون نافذ کرنے والی قوتوں کو اعلیٰ عدلیہ اس طرح بے دست وپا کردے گی تو ملک میں امن عامہ کا بحران مزید سنگین ہوگا۔ سونے پر سہاگا یہ کہ عدالتوں سے کرپٹ عناصر کو کمزور بنیادوں پر ضمانتیں مل جاتی ہیں جس کی وجہ سے احتساب مذاق بن کر رہ گیا ہے۔

ان اربوں روپے کا سوال کون کرے گا جو منی لانڈرنگ اور جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے ملک سے باہر بھیجے گئے؟ قانونی موشگافیوں کی بنیاد پر ’انصاف‘ کی خاص سہولت مخصوص لوگوں ہی کے لیے کیوں ہے؟ کیا قانون کی کتاب میں لکھے لفظ اس کی روح سے بالاتر ہوتے ہیں؟ طویل اور شدید موسم گرما ہمارے سامنے ہے، ٹڈی دل ہمارے غذائی تحفظ کو چٹ کررہے ہیں، وبا کے دنوں میں سیلابوں کا خطرہ بھی سر پر منڈلا رہا ہے۔ آنے والا وقت پاکستان کے لیے کسی طرح بھی آسان نہیں۔ ہمارے بجٹ کا سارا انحصار آمدن بڑھانے پر ہے نہ جانے ہماری معاشی ٹیم کس دنیا میں رہتی ہے۔

اور سوچ رہی ہے کہ ان حالات میں لوگ رضاکارانہ طور پر ٹیکس ان کی جھولی میں ڈال دیں گے۔ صرف ہنگامی حالات کے نفاذ سے ملنے والے اختیارات ٹیکس مشینری کو مؤثر بنا سکتے ہیں۔ پہلے سے ٹیکس دینے والوں کی جیبیں جھاڑنے سے کام نہیں چلے گا، ٹیکس نیٹ سے باہر مزے کی زندگی بسر کرنے والوں کو دائرے میں لانا ہوگا۔ مزید قرضے میسر نہ آنے کی صورت میں آخر کار معاشی اور سیاسی قیامت خیزی کا سامنا ہوگا۔ کیا ہم گلیوں چوراہوں میں ہنگامے برپا ہونے کا انتظار کررہے ہیں۔ گزشتہ دنوں اپنے لکھے گئے ایک کالم ”فتنہ و انتشار کی ممکنہ دوسری لہر“ کے کچھ حصے یہاں نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔

”بھارت نے افغانستان میں بڑی مشکل سے قدم جمائے تھے۔ 80ء کی دہائی میں روسیوں اور افغانیوں اور 2000ء کے بعد امریکیوں اور افغانیوں کے جان و مال کی قیمت پر بھارت نے اس خطے میں پاکستان کے خلاف درپردہ محاذ کھولے رکھا۔ افغانستان میں شروع ہونے والے امن عمل سے بھارت کے پیروں تلے سے یہ زمین بھی کھسک رہی ہے۔ یہ سیاق و سباق پیش نظر رہے تو سمجھنا مشکل نہیں کہ بلوچستان میں بھارتی سرگرمیوں میں تیزی کیوں آرہی ہے۔ اس کے علاوہ بھارت ہمیشہ سے اپنے پڑوسی ممالک پر اپنی چودھراہٹ جمانے کی پالیسی پر عمل پیرا رہا ہے۔

مودی اور اجیت دووال سے کیا یہ بعید ہے کہ وہ پاکستان میں بدامنی کی نئی لہر پیدا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانیں دیں یا اس کی فکر میں نہ رہتے ہوں؟ بھارت میں عوام اور میڈیا چینیوں کا خون مانگ رہے ہیں، ایسے حالات میں مقامی اور بین الاقوامی رائے عامہ کا رُخ موڑنے کے لیے کوئی بھی درپردہ کارروائی عین ممکن ہے۔ اسٹاک ایکسچینج تو آغاز ہے۔،اس کے علاوہ محمد انور کے برطانیہ میں را سے رقوم لینے کے اعترافات کے بعد ایم کیو ایم ایک دہشت گرد تنظیم کے طور پر بے نقاب ہوئی۔ ’را‘ سے مشترکہ تعلق ہونے کی وجہ سے ایم کیو ایم، بی ایل اے اور جئے سندھ کے کارکن ایک دوسرے کے اتحادی ہیں۔

“ یاد رہنا چاہیے کہ ایم کیو ایم کے دہشت گرد کو پھولوں کے ہار پہنا کر تھانوں سے نکالا جاتا رہا۔ اسلام آباد میں اپنی حکومتوں کو مضبوط کرنے کے لیے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن دونوں ہی نے کراچی پر ایم کیو ایم کی اجارہ داری قبول کی۔ اس پارٹی میں شامل کئی محب وطن دہشت گردی کی بھینٹ چڑھنے کا کسے افسوس نہیں ہوگا۔ مصطفی کمال یہ درد بیان کرسکتے ہیں کیوں کہ وہ کراچی کے لوگوں کی اکثریت کے نمائندہ ہیں۔ موجودہ حالات میں باقاعدہ اعلان کیے بغیر ہی کئی ممالک نے ایمرجنسی نافذ کی۔ ہمارے ”جمہوریت پسند“ احتساب سے فرار کے لیے موجودہ حالات کا بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

حفیظ شیخ اور ان کے ساتھیوں نے جو بجٹ پیش کیا وہ ایک نپا تلا خطرہ مول لینے کے مترادف ہی ہے۔ کیا ہم مشیر خزانہ اور ان کے ساتھیوں کے وعدوں پر آنکھیں بند کرکے اعتماد کرسکتے ہیں؟ امید کی جانی چاہیے کہ یہ صرف وقت کو ٹالنے کی کوشش نہ ہو۔ذاتی تجربے کی بنیاد پر اگرچہ میرا یہی خیال ہے۔اپنے ایک گزشتہ کالم میں یہ تجویز دے چکاہوں کہ ”جنگی حالات اور داخلی انتشار وغیرہ سے نمٹنے کے لیے آئین کے آرٹیکل232کے تحت ہنگامی حالات نافذ کرنے کی گنجائش ہے۔ اس کا تعلق داخلی انتشار یا غیر ملکی جارحیت کی صورت میں پاکستان یا اس کے کسی خاص حصے کی حفاظت سے ہے۔

یا اگر کسی داخلی بد نظمی کے باعث حالات صوبائی حکومت کے قابو سے باہر ہوجائیں تو بھی اس کا استعمال ہوسکتا ہے۔اس کے لیے صوبائی اسمبلی کی قرارداد درکار ہوگی۔ آئین کے مطابق صدر اگر ہنگامی حالات نافذ کردے تو دس روز کے اندر مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) سے اس اقدام کی توثیق حاصل کرنا ہوگی۔ ان کا مزید کہنا تھاکہ آئین کے آرٹیکل233کے مطابق ہنگامی حالات کے نفاذ کے بعد آرٹیکل 15، 16، 17، 18، 19اور 24میں فراہم کیے گئے بنیادی حقوق معطل ہوجاتے ہیں۔ ریاست کو انتظامی فیصلوں کے وسیع اختیارات حاصل ہوجاتے ہیں تاہم ہنگامی حالات ختم ہوتے ہی ایسے فیصلے تبدیلی کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ ایمرجنسی میں کیے گئے اقدامات کو چیلنج نہیں کیاجاسکتا تاہم مجلس شوریٰ سے ان کی منظوری حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے۔“

بھارت چھپ کر اور علی الاعلان ہمارے خلاف شورش برپا کررہا ہے اور اس کی پراپیگنڈہ مشینری بھی پوری طرح متحرک ہے۔ کیاہم بھی 1971کی تاریخ سے سبق سیکھنے کے لیے تیار نہیں؟ اس کے علاوہ ایف اے ٹی ایف کے مطالبات پورے کرنے کے لیے انتظامیہ کے اختیارات بڑھانے کی ضرورت ہے۔ پارلیمنٹ میں حزبِ اختلاف مسائل حل کرنے کے بجائے اپنی کرپٹ قیادت کو جیلوں سے باہر رکھنے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے۔ پہلے بھی انہی صفحات پر خبردار کرچکا ہوں کہ پاکستانی فوج کو مستقبل میں ہمہ جہت چیلنج کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

مادام دی سٹائل نے نپولین کے تختہ الٹنے پر کہا تھا”اخلاقی قوت سے محروم ہوتے ہی قومی نمائندگی تباہ ہوجاتی ہے اور ایک قانون ساز ادارہ جیسا بھی ہو فوج کے لیے پانچ سو نفر کے ہجوم سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ یہ ہجوم اتنی ہی تعداد کی بٹالین کے مقابلے میں کم منظم اور جنگ جو ہوتا ہے۔“آئین میں حالات کے مطابق اقدامات کا راستہ واضح ہے اور منتخب حکومت کو فوری ہنگامی حالات کا نفاذ کردینا چاہیے۔ آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ کی منظوری نے اخراجات کے لیے حکومت کو قانونی جواز فراہم کردیا ہے۔ اب آئین کے مطابق حالات سے نمٹنے کے لیے فوری اقدام کی ضرورت ہے یا ہم انتشار پھیلنے کا انتظار کریں گے اور ایک بار پھر ’نظریہئ ضرورت“ کے راستے پر چلیں گے۔