|

وقتِ اشاعت :   July 9 – 2020

یورپی ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی (ای اے ایس اے) نے 32 رکن ممالک کوپاکستانی پائلٹس کو گراؤنڈ کرنے کی سفارش کردی۔ای اے ایس اے نے رکن ممالک کو خط میں کہا ہے کہ رکن ممالک مشتبہ لائسنس کے تناظرمیں فی الحال پاکستانی پائلٹس سے آپریشنل کام نہ لیں۔ایجنسی نے کہا ہے کہ رکن ممالک میں اگرپاکستانی پائلٹس موجود ہیں تو بتایا جائے کہ ان سے متعلق کیا ایکشن لیا گیا ہے۔7 جولائی کو جاری کیے جانے والے تازہ میمو میں یورپی ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی نے تمام رکن ممالک سے پاکستانی لائسنس یافتہ پائلٹس کو کام سے روکنے کی سفارش کی ہے۔

اوران سے تمام پائلٹس کی تفصیلات طلب کی ہیں۔ یورپی ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی نے اپنے رکن ممالک سے کہاہے کہ جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی کی جانب سے جاری کیے گئے 40 فیصد لائسنسز میں بہت زیادہ بے ضابطگیوں کی شکایات منظرعام پر آئی ہیں جو باعث تشویش ہے۔ایجنسی اپنے 32اراکین کو مطلع کرتی ہے کہ وہ پاکستان کی جانب سے جاری کیے جانے والے لائسنسز پر کام کرنے والے پائلٹس کو معطل کردیں اور آرگنائزیشن میں اگر کوئی پاکستانی لائسنس یافتہ پائلٹ کام کررہاہے۔

تواس کی تفصیلات فراہم کی جائیں اوران پائلٹس کو فضائی آپریشن میں کام کرنے سے روک دیاجائے۔واضح رہے کہ مشکوک لائسنس والے پاکستانی پائلٹس کا معاملہ سامنے آنے کے بعد 30 جون کو یورپی ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی نے پی آئی اے کی یورپین ممالک کے لیے فضائی آپریشن کے اجازت نامے کو 6 ماہ کیلئے معطل کیا تھا۔ای اے ایس اے کی جانب سے پابندی کے بعد برطانیہ نے بھی پی آئی اے کی پروازوں کی آمد پرپابندی عائد کردی تھی۔گزشتہ دنوں ویت نام کی ایوی ایشن اتھارٹی نے بھی مشتبہ لائسنس کی اطلاعات کے بعد تمام پاکستانی پائلٹس گراؤنڈ کردئیے تھے۔

ویت نام کے ایوی ایشن حکام کا کہنا ہے کہ ویت نام کی سول ایوی ایشن اتھارٹی نے 27 پاکستانی پائلٹوں کو لائسنس دیا تھا جن میں سے 12 کام کررہے تھے جبکہ 15 کے معاہدے ختم ہو چکے تھے یا وہ کورونا کے باعث کام نہیں کر رہے تھے۔اس کے علاوہ ملائیشیا نے بھی پاکستانی پائلٹوں کو عارضی طور پر معطل کردیا تھا جبکہ متحدہ عرب امارات کی سول ایوی ایشن اتھارٹی نے ایمریٹس ائیرلائنز میں کام کرنے والے پاکستانی پائلٹس اور فلائٹ آپریشن افسران کے مشکوک لائسنس کی جانچ پڑتال کے لیے پاکستانی حکام کو خط لکھا تھا۔

بہرحال یہ ملکی امیج کیلئے اچھی بات نہیں کہ جعلی لائسنس کے معاملہ پر تمام پاکستانی پائلٹس کامستقبل داؤ پر لگ چکا ہے جتنا جلد ممکن ہوسکے اس مسئلے کو وفاقی حکومت نمٹادے کیونکہ صرف یہ پائلٹس کا نہیں بلکہ ملک کے دیگر شعبوں سے وابستہ افراد کا بھی سوال ہے کہ ملک کے اندر کسی بھی شخص کو جعلی لائسنس یا تجربہ کی ڈگری باآسانی دی جاسکتی ہے اور یہاں نظام اتنا کمزور اور کرپٹ ہے لہٰذا اسے ملکی وقار کا مسئلہ سمجھ کر سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ ممکن ہے کہ چند پائلٹس نے جعلی لائسنس حاصل کئے ہوں مگر دیگر پائلٹس نے اپنی محنت اور لگن کے ساتھ لائسنس حاصل کئے ہیں۔

لہٰذا اس معاملہ کو حل کرتے ہوئے لگے داغ کو مٹا نے کی کوشش کی جائے کیونکہ یہ ایک حساس نوعیت کا مسئلہ ہے پہلے سے ہی بعض دیگر معاملات کو لے کر پاکستانیوں کیلئے دیگر ممالک میں روزگار کے حصول میں مشکلات در پیش ہیں اس معاملہ کے بعد ان کی مشکلات مزیدبڑھ جائینگی۔وفاقی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی سمیت دیگر ذمہ داران کیخلاف سخت کارروائی کرے جنہوں نے جعلی لائسنس کے اجراء میں کردار ادا کیا ہے تاکہ دنیا کے سامنے ملک کا مثبت امیج ابھر کرسامنے آئے۔