|

وقتِ اشاعت :   July 15 – 2020

کرونا وائرس کی وبا کے دوران ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے تعلیمی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لئے آن لائن کلاسز کے انعقاد کا فیصلہ کیا تھا۔اگر ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے تعلیم یافتہ افراد کے اس فیصلے کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہ ایک مزاحیہ فیصلے کے سوا کچھ نہیں ہے اور یہ مزاحیہ فیصلہ طالب علموں کے مستقبل کے ساتھ ایک گھناؤنا مذاق ہے۔جب بیوقوفوں کی مجلس سجتی ہے تو فیصلے ایسے ہی مزاحیہ اور طنزیہ آتے ہیں کیونکہ بیوقوف لوگ سوچ بچار کے بعد فیصلہ لینے کے بجائے دوسروں کی تقلید میں فیصلے صادر فرماتے ہیں وہ یہ نہیں جانتے کہ معروضی حقائق کی روشنی میں فیصلوں پہ عمل درآمد کیسے کیا جاتا ہے؟

انہیں یہ علم نہیں کہ آیا جس فیصلے کی بنیاد پہ ہم قوم کے مستقبل کا تعین کررہے ہیں اسکے لئے وسائل موجود ہیں؟ایسا ہی ایک فیصلہ ملک کے اعلیٰ ادارے کے اعلیٰ عہدوں پہ فائز باشعور افراد نے لیا کہ پورے پاکستان میں کرونا وبا کے باعث آن لائن کلاسز کا انعقاد کیا جائیگا۔ہمارے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں نے معروضی حقائق کے برعکس ترقی یافتہ ملکوں کی تقلید میں آن لائن کلاسز کے انعقاد کا فیصلہ تو کرلیا لیکن اس فیصلے پہ عملدرآمد کیسے کیا جائے، اسکے لئے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے پاس کوئی لائحہ عمل نہیں۔اس فیصلے کے خلاف طلبہ تنظیموں نے احتجاج کا ایک نہ تھمنے والے سلسلے کا آغاز کردیا۔

اور مختلف تنظیموں نے الائنس کے ذریعے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی ہٹ دھرمی اور حکومت کی بے بسی کے خلاف پر امن احتجاج کیا۔بلوچستان کی متحرک طلبہ تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی نے پنجاب اور اسلام آباد کے مختلف تعلیمی اداروں میں بلوچ طلبہ حقوق کی ضامن کونسلز سے اتحاد کرکے بلوچ اسٹوڈنٹس الائنس تشکیل دیکر مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے منظم کئے اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے فیصلے کو معروضی حقائق کے برعکس اور طالب علموں کے مستقبل کے ساتھ مذاق قرار دیا اور اپیل کی کہ آن لائن کلاسز کا فیصلہ منسوخ کیا جائے۔

یا طلبہ کو بنیادی سہولتیں فراہم کرکے آن لائن کلاسز کے انعقاد کو یقینی بنایا جائے لیکن حکومت پاکستان اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے ذمہ داران طالب علموں کے اپیل پہ کان دھرنے کے بجائے اپنے فیصلے کے دفاع کے لئے طالب علموں پہ الزام لگا رہے ہیں جو سراسر نا انصافی ہے۔دیگر طلبہ تنظیموں نے بھی احتجاجی مظاہرے اور سوشل میڈیا میں بھرپور طالب علموں کے ساتھ نا انصافی کے خلاف بھرپور آواز بلند کی، گوادر،کراچی،تربت،خضدار،سوراب،اسلام آباد،کوئٹہ پنجگور طالب علموں کے احتجاج سے لرز گئے لیکن ہائیر ایجوکیشن کمیشن اور تعلیمی کرتا دھرتا ٹس سے مس نہ ہوئے اور اپنے فیصلے کے دفاع میں تاویلیں پیش کرتے رہے۔کوئٹہ احتجاج کے دوران طلبہ و طالبات پہ تشدد کیا گیا اور انہیں گرفتار بھی کیا گیا لیکن پر امن طالب علموں کو انکے آئینی حق سے محروم کردیا گیا۔

دور جدید کے طالب علم جدیدیت کے حامی ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ تعلیم کے حصول کو جدید سے جدید تر بنایا جائے اور وہ طالب علم جو آن لائن کلاسز کے خلاف منظم مظاہرے کررہے ہیں وہ آن لائن کلاسز کے قطعی خلاف نہیں بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ انہیں بجلی اور انٹرنیٹ کی سہولیات فراہم کی جائیں تو وہ بخوشی آن لائن کلاسز لینگے۔حکومتی ادارے آن لائن کلاسز کے لئے سہولیات دینے کے بجائے تشدد اور گرفتاری پہ اتر آئی ہیں حالانکہ طلبہ کے احتجاج کو دیکھتے ہوئے حکومت کو ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا فیصلہ منسوخ کروانا تھا لیکن حکومت نے اسکے برعکس طلبہ کو پابند سلاسل کردیا۔