|

وقتِ اشاعت :   July 16 – 2020

مستونگ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی سینئر نائب صدر ملک عبدالولی کاکڑ مرکزی رہنماء نوابزادہ حاجی لشکری خان رئیسانی بی ایس او کے مرکزی چیئرمین نزیر بلوچ نے کہا ہے کہ ریاست سیاسی کارکنوں کو سیاست اور سیاسی عمل سے دور رکھنے کے لیئے شازش کرکے گروہی مفادات میں الجھا رہے ہیں موجودہ حالات سیاسی کارکنوں کے لیئے بہت بڑا چیلنج ہے کہ وہ اپنے قومی شناخت قومی اختیار قومی ساحل وسائل کے لیئے عملی جدوجہد کو ترجیح دے۔

انہوں نے کہا کہ المیہ یہ ہے کہ پنجاب کے اعلی بیوروکریٹس کو بلوچستان میں مسلط کرکے جو جعلی ڈومیسائل بناکر پنجاب اور دیگر صوبوں کے لوگوں کو کئی دہائیوں سے وفاقی کوٹہ پر ہمارے نوجوانوں کے حقوق سلب کر رہے ہیں حکومت 18 ویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ پر قدغن لگانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں جیسے ملک کے دیگر اکائیاں کسی صورت قبول نہیں کرینگے۔بی این پی شہداء کی والی وارث اور بلوچستان کی حقیقی جماعت ہے۔

جسکی جد وجہد قربانیوں سے بھری پڑی ہے بلوچ قوم اور بلوچستان کے لیے شہید چیئرمین منظور بلوچ شہید گل زمین حبیب جالب بلوچ اور شہداء بلوچستان کی بے مثال اور لازوال قربانیاں نا قابل فراموش اور ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔جنھوں نے حقوق کی خاطر طویل ترین سیاسی و قومی جمہوری جدوجہد ظلم وجبر،سماجی ناانصافیوں،قومی نابرابری، ساحل اور وسائل کے دفاع کیلئے نبرد آزما ہو کر غیر جمہوری قوتوں کے ظلم وستم کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی مانند کھڑے ہوکر۔

ہر قسم کی سختیاں اور قید وبند،کی صوبتیں برداشت کیے بی این پی شہدا کی ادھوری مشن کو پائیہ تکمیل تک پہنچانے میں کسی قربانی سے دریغ نہیں کرینگے۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے مستونگ میں شہید چیئرمین منظور بلوچ کی رسم چہلم اور شہداء بلوچستان ڈے کی مناسبت سے تعزیتی مرکزی جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر تعزیتی جلسے سے بی این پی کے مرکزی ہیومن رائٹس سیکریٹری موسی بلوچ بی ایس او کے مرکزی رہنماء جہانگیر منظور بلوچ نیشنل پارٹی کے سینٹرل کمیٹی کے رکن اسلم بلوچ نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی رہنماء میر اقبال زہری بی این پی کے ضلعی صدر میر عبداللہ مینگل جماعت اسلامی کے امیر مولانا خلیل الرحمان شاہوانی گرینڈ الائنس کے چئیرمین حاجی انور شاہوانی و دیگر نے بھی خطاب کیا۔

مقررین نے شہید چیرمین منظور بلوچ شہید حبیب جالب بلوچ اور شہدا بلوچستان کو انکی قومی و سیاسی جہد وجہد اور بلوچ سر زمین کے لیے بیش بہا قربانیوں کو زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ شہید چیرمین منظور بلوچ محض ایک سیاسی کارکن یا فرد کا نام نہیں بلکہ ایک سوچ و فکر اور جہد مسلسل کا نام ہے جنھوں نے زمانہ طالب علمی سے لے کر تا شہادت تک انتہائی مخلصی اور جونمردی سے مشکل حالات کا مقابلہ کر کیپارٹی پروگرام کے ساتھ ڈٹے رہے۔بی این پی کے کارکن شہید منظور بلوچ کی طرز سیاست اور نقش قدم پر چل کر حقوق کے حصول کے لیے جہد وجہد کرے۔

مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومت بھی وفاق کے ساتھ اس سازش میں برابر کے شریک ہیں اگر 18 ویں ترمیم پر قدغن لگا کر بلوچستان کے ساحل وسائل کے اختیار اسلام آباد کے ہاتھ میں دینا ایسا ہے پھر ہمیں اسلام آباد سے اپنے ہی وسائل اور حقوق کے لیئے بھیک مانگنے کے مترادف ہوگا انہوں نے کہا کہ وقت کا تقاضا ہے کہ بلوچ پشتوں اس نام نہاد سلکٹیڈ حکمرانوں کے خلاف کم سے کم نقاط پر متحد و منظم ہو کر جہد وجہد کرے ورنہ یہ مسلط کردہ حکومت بلوچستان کی ساحل و سائل کی طرح ہمارے نگ و ناموس کو بھی بھیج دینگے۔

بلوچستان کے کوٹہ پر وفاقی محکموں میں 22 ہزار سے زائد جعلی و بوگس لوکل وڈومسائل پر غیر مقامی افراد کی بھرتی 73سالہ محرومیوں اور زیادتوں کا تسلسل ہے۔مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ریاست ایک سازش کے تحت سیاسی کارکنوں کو قومی حقوق اور سیاسی عمل سے دور کرنے کیلئے ضرورت زندگی کیساتھ منسلک کیاہے تاکہ وہ سیاسی عمل سے دور رہ سکیں سیاسی کارکن اجتماعی قومی حقوق قومی شناخت قومی وقار اجتماعی خوشحالی کیلئے جدوجہد کرتیتھے۔انھوں نے کہا کہ ساحل و ساحل کی قومی جدوجہد سے دستبردار کرنے کیلئے مختلف مسائل میں الجایاجارہاہے

۔انھوں نے کہا کہ پاکستان کثیر قومی ریاست ہے اس میں جتنا شناخت سندھی پشتون پنجابی کا ہے اتناہی بلوچ کا بھی ہوناچائیے۔انھوں نے کہا کہ آج سیاست میں ایسے بوٹ پالشی اور کھٹ پتلی افراد کو سلیکٹ کرکے اسمبلیوں میں بٹھایا گیا ہے جو بلوچستان کے قومی ایشوز پر خاموش تماشائی کا کردار اداکررہے ہیں جبکہ انکو خاموشی کے بدلے طرح طرح کی مراعات دیجاتی ہیں۔ سینٹ میں بلوچستان کے 22 سینیٹرز ہے مگر ان میں صرف تین چار سینیٹرز کے علاوہ تمام سینیٹرز این ایف سی ایوارڈ اور بلوچستان کے دیگر اہم معاملات پرخاموش کرتے ہے۔

جبکہ سردار اخترجان مینگل بلوچستان کے قومی حقوق پر آواز اٹھاتے ہے تو یہ سینیٹرز انکی کردار کشی کرتے ہوئے آسمان سر پر اٹھاتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ باپ کے نام سے راتوں رات بنائی جانیوالے بلوچستان پر مسلط کردہ پارٹی کا مقصد بلوچستان کے حقوق اسلام آباد کے حوالے کرناہے تاکہ ہم مرکز سے بھیک مانگتے رہے ریکوڈک سیندک گوادر جیسے اہم مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے معمولی مراعات کے بدلے خاموش لوگون کو اسمبلی میں بٹھایا جاتا ہے۔

مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مقتدر قوتوں نے اپنی بالادستی اور بلوچستان کے وساحل کو لوٹنے کی خاطر ایک ہی خاندان کو تین پشتوں سے وزرات اعلی کے نشت پر پر بھیٹا کر صوبے کو تبائی و بربادی کی طرف دھکیل دیاگیا ہے۔انھوں نے کہاکہ بلوچستان میں باپ کے دو قسم کے بیٹے ہے ایک وہ ہے جنکو عام انتخابات کے موقع پر حقیقی اور منتخب نمائندوں کے مقابلے میں جعل سازی کے زریعے جتوایا گیا۔

اور دوسرا بیٹا وہ ہے جو انتخابات میں بری طرح شکست کھائی تھی لیکن وزیر اعلی نے پاپ کے دونوں بیٹوں میں فرق کو ختم کر کیاپوزیشن کیالیکٹڈ نمائندوں کو یکسر نظرانداز کر کے عوام کے ووٹ سے الیکٹڈ عوامی کو 13, 13کروڑ فنڈز دیے ہے جبکہ نان الیکٹڈ لوگوں کو ایک ایک دو دو ارب روپے دے کر صوبے کے خزانے کو اپنی زاتی جاگیر سمجھ بے دریغ طریقے سے بانٹ رہے ہیں جن کا اس مٹی کے ساتھ نہ اخلاص ہے اور نہ ہی وفادار ہے۔

بلوچستان کے عوام باپ اور انکے بیٹوں سے کسی خیر کی توقع نہ رکھے۔مقررین نے کہاکہ ایک منظم منصوبہ بندی اور سازش کے زریعے بلوچستان کے کوٹہ پر وفاقی پوسٹوں پر 22 ہزار سے زائد لوگوں کو مسلط کر کے بلوچستان کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک روا رکھا گیا ہے جو کہ ناقابل قبول عمل ہے جس پر بی این پی کسی صورت خاموشی اختیار نہیں کرینگے اسمبلیوں اور اسمبلیوں سے باہر اس اہم مسلے کے خلاف بھر پور احتجاجی چلائنگے تعزیتی ریفرنس کے آخر میں شہید چیرمین منظور بلوچ اور شہداء کی ایصال ثواب کے لیے اجتماعی دعا اور لنگر بھی تقسیم کیا گیا۔